مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے از احمد فراز

مثالِ دستِ زُلیخا تپاک چاہتا ہے
یہ دل بھی دامنِ یُوسُف ہے، چاک چاہتا ہے

دُعائیں دو مِرے قاتِل کو تُم، کہ شہر کا شہر
اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے

فسانہ گو بھی کرے کیا، کہ ہر کوئی سرِ بزم
مآلِ قصۂ دِل دردناک چاہتا ہے

اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں
اور اُس کا دھیان بہت اِنہماک چاہتا ہے

ذرا سی گردِ ہوس دِل پہ لازمی ہے فراز
وہ عِشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے!

(احمد فراز)

Comments

Popular posts from this blog

میلادیوں کے گیارہ اعتراضات و شبہات کے جوابات

ہماری عجیب نفسیات

نعت ‏شریف ‏از ‏پیر ‏مہر ‏علی ‏شاہ ‏علیہ ‏رحمہ