غزل ‏از ‏میثم ‏علی ‏آغا

قدم قدم پہ جہنم سہارتا ہوا میں
تمہارے ہجر سے خود کو گزارتا ہوا میں

یہ پور پور اذیت میں ڈالتے ہوئے تم
یہ سانس سانس محبت پکارتا ہوا میں

پھر ایک رات اذیت سے مر گیا تھا کہیں
تمہارے عشق کو اندر سے مارتا ہوا میں

عجب نہیں ہے کسی روز قتل ہو جاؤں
تمہاری جان کا صدقہ اُتارتا ہوا میں

زمین تنگ ہوئی جا رہی ہے وحشت کو
سمٹتا جاتا ہوں پاؤں پسارتا ہوا میں

کہا نہیں تھا کہ مجھ سے سدھر نہ پائے گی!
بگڑ گیا ہوں یہ دنیا سدھارتا ہوا میں

ِمُعاف کرنا، تِرا ساتھ دے نہیں پایا
پلٹ رہا ہوں محبت میں ہارتا ہوا میں

عجیب شخص ہوں، ہنستا ہوں، شعر کہتا ہوں
یہ زہر روز رگوں میں اُتارتا ہوا میں

(میثم علی آغا)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف