غزل از افتخار شفیع
جدید ہوتے ہوئے کہنہ سال آدمی ہُوں
مَیں آپ اپنے لیے اک سوال آدمی ہُوں
مری تلاش میں پھرتی ہے ریگِ صحرا بھی
مَیں اپنے دشت میں ہُوں اور غزال آدمی ہُوں
مُجھی سے روشنی پاتے ہیں اختر و مہتاب
شبِ سیاہ میں سورج مثال آدمی ہُوں
بہت سنبھال کے دیکھو مجھے، کہ مَیں صاحب
عروج دور میں محوِ زوال آدمی ہُوں
مجھے بھی نخلِ تمنّا کی رہگزار میں دیکھ
مَیں برف زار میں پتّوں پہ شال آدمی ہُوں
(ڈاکٹر افتخار شفیع)
Comments
Post a Comment