لادینیت کے اثرات مشرق میں از محمد فہد حارث
لادینیت کے اثرات مشرق میں
==========
مغرب نے جب کلیسا سے بغاوت کی تو اس وقت پروٹیسٹنٹ فرقہ کو سب سے زیادہ عروج نصیب ہوا۔ پروٹیسٹنٹ فرقہ کا اصل مقصد تو اصلاحِ مذہب تھا لیکن اصلاحِ مذہب کے پیچھے خفیہ محرک مذہب کو عقل سے نتھی کرنے کی سعی تھی جس کا بنیادی نکتہ یہ قرار پایا کہ خدا خود بھی قوانینِ فطرت کی پابندی پر مجبور ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دے سکتا جس سے فطرت کے اصولوں کی نفی آتی ہو۔ یہ سوچ مسلسل ارتقائی مراحل میں رہی یہاں تک کہ موجودہ عیسائیت کا ظہور ہوا۔ وہ عیسائیت جو اوپری سطح سے دیکھنے پر لادینیت محسوس ہوتی ہے لیکن اپنے اندر کہیں عیسائیت کے تخم لازم رکھتی ہے۔ وہی عیسائیت جس نے آج تمام یورپی ممالک کو اپنے مذہبی ، سماجی اور معاشرتی مفادات کے لئے اکٹھا کررکھا ہے۔ جس کے مذہبی تشدد کی کارستانیاں کبھی جرمنی میں سننے کو ملتی ہیں تو کبھی برطانیہ میں اور کبھی فرانس کے کسی اخبار میں توہین آمیز خاکوں کی صورت میں۔
قصہ مختصر مغرب جتنا عقل پرست کیوں نہ ہوجائے، اوپر سے دیکھنے میں جتنا لادین کیوں نہ محسو س ہو، اس کو ہمیشہ اپنے لئے ایک مذہب اور تثلیث کی ضرورت رہی۔ ایک ایسی عیسائیت کی ضرورت رہی ہے جو اس کو مذہب سے وابستگی کا نام تو دے لیکن اس کی زندگی پر کسی طور کی قدغن نہ لگا سکے۔ خیر مغرب جو کرے وہ کرے لیکن افسوس یہ ہوتا ہے کہ آج اسلامی دنیا کا بیشتر طبقہ بھی اسی روش پر گامزن ہے۔ ہمارے درمیان موجود ، ایک محتاط اندازے کے مطابق، تقریباً چالیس فیصد مسلمان اسی نوعیت کے ہیں جن کو آپ صرف نام سے مسلمان جانتے ہیں وگرنہ اپنے رہن سہن ، پہننے اوڑھنے اور سوچ و فکر میں وہ صد فیصد مغرب کے پیروکار ہیں۔ بعض دل جلے ایسے لوگوں کو دیسی انگریز پکارتے ہیں لیکن طعن و طنز سے ماوراء یہ بات مسلّمہ و بدیہی ہے کہ ایسے مسلمانوں کی کثرت مسلم دنیا میں روز افزوں ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک قابلِ ذکر طبقہ اپنے پہناوے اور سوچ و فکر میں مکمل لبرل ہندؤں جیسا ہوچکا ہے۔ ہندؤں کے ساتھ شادیاں اور ان کی مذہبی تقریبات میں شامل ہونا ان لوگوں کے لئے بہت معمولی بات بن چکی ہے۔ پاکستان میں حال اس سے بُرا ہے شاید۔ یہاں متموّل طبقہ میں بالخصوص اور کیمبرج سسٹم سے تعلیم حاصل کرنے والے طبقہ میں بالعموم مذہب ایک قطعی دقیانوسی فکر بن کر رہ گیا ہے۔ میں ذاتی طور پر ایسے کئی لوگوں کو جانتا ہوں جو ترقی کرکے معاشرے کی مڈل کلاس سے ہائر کلاس میں داخل ہوئے اور آج ان کا رہن سہن بالکل انگریزوں جیسا ہے۔ ان کے بچے رات سوتے ہیں تو کانوں میں ائیر پیس لگائے گانے سنتے سوتے ہیں، صبح اٹھتے ہیں تو کانوں میں ائیر پیس لگائے گانے سنتے اٹھتے ہیں۔ ان کے والدین نے ان کو بتا چھوڑا ہے کہ ایک اچھی صبح کا آغاز تلاوتِ قرآنِ پاک سے نہیں بلکہ ایک کپ اچھی کافی اور سکون دینے والی موسیقی سے ہوتا ہے۔ مردو زن کی مساوات کے ہوشربا تخیل نے والدین کو لڑکا لڑکی میں کوئی فرق نہیں کرنے دیا ہے۔ والد موصوف کو کوئی اعتراض نہیں ہوتا کہ بیٹی رات کتنے بجے گھر آتی ہے اور کس کے ساتھ آتی ہے۔ ماں کو کوئی پریشانی لاحق نہیں کہ بیٹی کس طور کے کپڑے پہن رہی ہے اور کن سے مل رہی ہے۔ کیونکہ والدہ صاحبہ کو خود کیٹی پارٹیز سے فرصت نہیں ملتی جن کا بنیادی مقصد برانڈڈ کپڑوں، بیگز ، زیورات اور کراکری کی نمائش ہوتا ہے اور ان پارٹیز میں جب کوئی خاتون فخر سے بتاتی ہیں کہ میری بیٹی لندن یا امریکہ پڑھنے جارہی ہے تو پھر مقابلے کی اس دوڑ میں حصہ لینے کے لئے ہر کوئی اپنی بیٹی کو بغیر محرم باہر اکیلے پڑھنے بھیجنا چاہتا ہے۔ اس پڑھنے بھیجنے کی خواہش کے پیچھے بیٹی کی اچھی تعلیم مقصود نہیں ہوتی بلکہ مقصد ہوتا ہے کہ معاشرے میں اپنی ناک اونچی کرنا کہ دیکھو ہم کتنے لبرل اور ساتھ ہی امیر ہیں کہ اپنی بیٹی کو بیرونِ ملک پڑھنے بھیج رہے ہیں۔
ایسے افراد اپنے گھر کی نجی محافل میں اپنے ڈرائیونگ روم میں بیٹھ کر جی بھر کر اسلام اور مسلمانوں پر تنقید کرتے ہیں جس کا اصل محور و مرکز یہی ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی بدحالی کی اصل وجہ دین کی فرسودہ تعلیمات سے چمٹے رہنا ہے۔ نماز و زکوٰۃ و روزہ ان تمام اصحاب کے نزدیک چند فرسودہ رسومات ہیں جن پر عمل پیرا نہ ہونے کی صورت میں اگر ان حضرات سے بازپُر س کرو تو یہ فوراً جواب داغ دیتے ہیں کہ جو نماز اور روزوں کی پابندی کرتے ہیں وہ کونسا اچھا کام کررہے ہیں معاشرے میں، نماز اور روزہ کی پابندی کرتے ہوئے بھی وہ جھوٹ، چوری اور رشوت میں ملوّث ہیں۔ گویا نمازاور روزہ پر عمل کرتے ہوئے کسی کا غلط کام کرنے نماز و روزہ نہ پڑھنے کے لئے جواز فراہم کردیتا ہے۔ دراصل یہ سب بہانے ہوتے ہیں جو یہ خود کی فکری کجی کو سندِ جواز فراہم کرنے اور اپنے مردہ ضمیر کو مطمئن کرنے کے لئے گھڑتے ہیں۔ ایسے لوگ واقعی اندر سے دیسی انگریز ہی ہوتے ہیں بلکہ دیسی انگریزوں سے بھی بدتر۔ اگر کسی کو ۱۹۸۰ کی دہائی میں پی ٹی وی پر آنے والی بنجمن سسٹرز یاد ہوں جو کہ مختلف ٹی وی پروگرامز میں اکثر گانے گایا کرتی تھیں۔ یہ تینوں بہنیں مذہباً عیسائی تھیں لیکن پاکستانی معاشرے میں رہنے کے سبب اس وقت سر پر دوپٹہ اور باوقار کپڑوں کے ساتھ بلا اچھل کودکئے گانے گاتی تھیں۔ لیکن اس کے کچھ عرصہ بعد ہی "مسلمان" شاذیہ خشک صاحبہ ٹی وی پر نمودار ہوئیں جنہوں نے اچھل کود کرکے گانے کا وہ "باوقار و ہوشرُبا ر"یکارڈ قائم کیا کہ الامان الحفیظ۔ اور اپنی اس "باوقار" پرفارمنس کے لئے وہ اکثر و بیشتر اپنے شوہر کی "فکری آزادی " کی تحسین کرتی سنی جاتی تھیں کہ ان کے شوہر صاحب نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ تمہاری آواز اچھی ہے، تم کو بالضرور اپنے "فن " کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور یوں ان کو اپنے شائقین کو محظوظ کرنے کا یہ "نادر" موقع ہاتھ آسکا۔ یہ آج کی بات نہیں بلکہ یہ روش تو تقریباً ایک صدی پرانی ہے یہی وجہ ہے کہ اسی بات کا رونا اپنی کتاب "تحریک آزادئ ہند اور مسلمان" میں، جو کہ ۱۹۳۰ کی دہائی میں لکھی گئی تھی، سید مودودی نے ان الفاظ میں رویا تھا:
"اونچے تعلیم یافتہ طبقہ کی حالت اور بھی زیادہ افسوس ناک ہے۔ یہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اسلام ایک نسلی قومیت کا نام ہے اور جو شخص مسلمان ماں باپ کے ہاں پیدا ہوا ہے وہ بہر حال مسلمان ہے خواہ عقیدہ و مسلک اور طرز زندگی کے اعتبار سے وہ اسلام کے ساتھ کوئی دور کی مناسبت بھی نہ رکھتا ہو۔ سوسائٹی میں آپ چلیں پھریں تو آپ کو ہر جگہ عجیب و غریب قسم کے ’’مسلمانوں‘‘ سے سابقہ پیش آئے گا۔ کہیں کوئی صاحب اعلانیہ خدا اور رسولﷺ کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اسلام پر پھبتیاں کس رہے ہیں؟ مگر ہیں پھر بھی ’’مسلمان‘‘ ہی۔ ایک دوسرے صاحب خدا اور رسالت اور آخرت کے قطعی منکر ہیں اور کسی مادہ پرستانہ مسلک پر پورا ایمان رکھتے ہیں، مگر ان کے ’’مسلمان‘‘ ہونے میں کوئی فرق نہیں آتا۔ ایک تیسرے صاحب سود کھاتے ہیں اور زکوٰۃ کا نام تک نہیں لیتے، مگر ہیں یہ بھی ’’مسلمان‘‘۔ ایک اور بزرگ بیوی اور بیٹی کو میم صاحبہ یا شریمتی جی بنائے ہوئے سنیما لیے جارہے ہیں، یا کسی رقص و سرود کی محفل میں صاحب زادی سے وایولین بجوارہے ہیں، مگر آپ کے ساتھ بھی لفظ ’’مسلمان‘‘ بدستور چپکا ہوا ہے۔ ایک دوسرے ذات شریف نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، تمام فرائض سے مستثنیٰ ہیں۔ شراب، زنا، رشوت، جوا اور ایسی سب چیزیں ان کے لئے جائز ہوچکی ہیں۔ حلال اور حرام کی تمیز سے نہ صرف خالی الذہن ہیں بلکہ اپنی زندگی کے کسی معاملہ میں بھی ان کو یہ معلوم کرنے کی پرواہ نہیں ہوتی کہ خدا کا قانون اس بارے میں کیا کہتا ہے۔ خیالات، اقوال اور اعمال میں ان کے اور ایک کافر اور مشرک کے درمیان کوئی فرق نہیں پایا جاتا۔ مگر ان کا شمار بھی ’’مسلمانوں‘‘ ہی میں ہوتا ہے۔ غرض اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں گے تو اس میں آپ کو بھانت بھانت کا ’’مسلمان‘‘ نظر آئے گا۔ مسلمان کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کرسکیں گے۔ یہ ایک چڑیا گھر ہے جس میں چیل ، کوے، گدھ، بٹیر، تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں اور ان میں سے ہر ایک ’’چڑیا‘‘ ہے کیونکہ چڑیا گھر میں ہے۔"
لیکن حیرت ہے کہ ان سب کے باوجود آج مشہور سے مشہور اور متعصب سے متعصب کمیونسٹ اور لادین مسلمان بھی اپنی زندگی میں مسلمان کہلانا چاہتا ہے اور مرنے کے بعد مسلمانوں کے طریقے پر ہی دفن ہونا چاہتا ہے۔ میں نے ماضی میں ایسی کوئی مثال نہیں سُنی جہاں ایسے کسی شخص نے اپنی غیر مسلمانیت کا دعویٰ کیا ہو یا مسلمانوں کے طریقے کو تجنے کی بات کی ہو سوائے دو اشخاص کے۔ ایک ن۔م۔ راشد اور دوسری عصمت چغتائی صاحبہ۔ ن ۔ م ۔ راشد صاحب کے بارے میں بڑے فخر سے کہا جاتا ہے کہ راشد چونکہ آخری عمر میں صومعہ و مسجد کی قیود سے دور نکل چکے تھے، اس باعث انہوں نے عرب سے درآمد شدہ رسوم کی بجائے اپنے لواحقین کو اپنی آبائی ریت پر، چتا جلانے کی وصیت خود کی تھی۔اور ایسی ہی کچھ وصیت عصمت چغتائی کی بابت بھی ملتی ہے۔
تحریر: محمد فہد حارث
Comments
Post a Comment