آگ از احمد فراز
آگ
مُفلِسو! اپنے مُقدّر سے شکایت نہ کرو
اِس سے اِنسان کے اِیمان میں فرق آتا ہے!
ہم تو ناچِیز سے بندے ہیں، ہمیں کیا معلُوم
کون سی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے
کتنے گُم راہ و گُناہ گار ہُوئے جاتے ہو!
کیا کہا؟ "خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں!
دم بدم آگ کے بے رحم لپکتے شُعلے
اپنے بوسیدہ مکاں راکھ کیے جاتے ہیں!
خاک ہی خاک ہُوئی جاتی ہے دُنیا اپنی
اور اِس آتش و ظُلمات کے سیلاب میں بھی
مرمر و آہن و سِیماں کی عمارات بلند
اُسی پِندار، اُسی شان سے اِیستادہ ہیں
کیا خُدا صرف غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے؟"
ٹھیک کہتے ہو، مگر خام عقائد والو!
ہم تو تقدیر کے بندے ہیں، ہمیں کیا معلُوم
کون سی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے!
اور پھر اپنی شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے؟
وہی ہوتا ہے جو منظورِ خُدا ہوتا ہے!!
(احمد فراز)
Comments
Post a Comment