‎وہ ‏کب ‏کے ‏آئے ‏بھی ‏اور ‏گئے ‏ہیں ‏از ‏جگر ‏مراد ‏آبادی

وہ کب کے آئے بھی اور گئے ہیں، نظر میں اب تک سما رہے ہیں!
یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آ رہے ہیں، وہ جا رہے ہیں!

کدھر ہے تیرا خیال اے دل؟ یہ وہم کیا کیا سما رہے ہیں!
نظر اٹھا کر تو دیکھ ظالم، کھڑے وہ کیا مسکرا رہے ہیں!

وہی قیامت ہے قدِ بالا، وہی ہے صورت، وہی سراپا!
لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں!

خرام رنگیں، نظام رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں
قدم قدم پر، روش روش پر، نئے نئے گُل کِھلا رہے ہیں!

وہی لطافت، وہی تبسم، وہی نزاکت، وہی ترنم!
مَیں نقشِ حرماں بنا ہوا تھا، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں!

شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں!
تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں!

یہ موجِ دریا، یہ ریگِ صحرا، یہ غنچہ و گُل، یہ ماہ و انجم
ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں!

خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شورِ تہنیت ہے
یہ وقت وہ ہے جگر کے دل کو وہ اپنے دل سے مِلا رہے ہیں!!

(جگر مراد آبادی)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف