بلا ‏کا، ‏ضبط ‏پہ ‏اپنے، ‏غرور ‏ہو ‏گیا ‏تھا ‏از ‏ضمیر ‏قیس

بلا کا، ضبط پہ اپنے، غرور ہو گیا تھا
میں تشنہ لب سہی، دریا سے دور ہو گیا تھا

میں تیری ڈھال ہوں، لیکن تجھے خبر بھی نہیں
مرا بدن ترے زخموں سے چور ہو گیا تھا

پلٹ کے اور بھی شدت سے اس نے آنا ہے
شکستِ شرم سے دشمن غیور ہو گیا تھا

سب اپنا اپنا خزانہ چھپا کے بیٹھے ہیں
کسی کے دل میں تو پیدا فتور ہو گیا تھا

میں خشک ریت کا ذرہ سہی، مگر اک دن
سمندروں پہ بھی مجھ کو عبور ہو گیا تھا

وحی کا بھی تو نہیں تھا گمان اس پہ ہمیں
جو ایک حرفِ تنزل زبور ہو گیا تھا

دریچہ جھٹ سے وہ کھل کے ہوا تھا بند، مگر
گلی میں صبح کے سورج سا نور ہو گیا تھا

انا پرست وہ پہلے بھی تھا، مگر اب تو
مزاجِ دل ہی سرِ اوجِ طُور ہو گیا تھا

بہت سی خط کی عبارت مجھے مٹانی پڑی
ذرا سا حادثہ بین السطور ہو گیا تھا

یقیں نہیں تھا خدائی پہ اہلِ دل کو ابھی
تو عشق معجزہ بن کے ظہور ہو گیا تھا

خرد کی میز پہ رکھی ہوئی تھی دل کی کتاب
سو شعر کہنے کا مجھ کو شعور ہو گیا تھا

کسی کے قرب میں مجھ کو تو شرم آنے لگی
جو حال تیرا دلِ ناصبور، ہو گیا تھا

بس ایک اسمِ محبت سے رام کر لیا ہے
جو شخص کاملِ عِلمِ نفور ہو گیا تھا

وہ چیر اب کے لگا تو کہ بے خیالی میں
شماریات میں قدرے وفور ہو گیا تھا

پلک پہ رتجگا اترا تو اُس کی یاد آئی
پرانا خواب کی شاخوں کا بُور ہو گیا تھا

نہ دل میں ضد کوئی باقی، نہ خواہشیں، نہ سوال
یہ بچہ کم سِنی میں ماں سے دُور ہو گیا تھا

جنوں کے لطف میں سب نے شراب پی ہوئی تھی
خرد کا ذائقہ تو بےسرور ہو گیا تھا

گلہ نہیں مجھے زنداں میں ڈالنے والے!
بتا تو دے کہ جو مجھ سے قصور ہو گیا تھا

گزر تو اس کے بِنا بھی رہی ہے اپنی ضمیر
میں ایک شخص کا عادی ضرور ہو گیا تھا

(ضمیر قیس)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف