مرے ‏چارہ ‏گر ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

مرے چارہ گر

یہ جو زخم زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سُو
مرے بےخبر ، مرے بےنشاں، میں تھا کس نگر، تُو رہا کہاں
کہ زماں، مکاں کی یہ وسعتیں تجھے دیکھنے کو ترس گئیں
وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں
تو مرے سفر کا شریک ہے، نہیں ہم سفر، نہیں ہم سفر!
مرے چارہ گر، ممرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر!
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ، کئی موسموں میں بدل گیا
اسے ناپتے، اسے کاٹتے، مرا سارا وقت نکل گیا
نہیں جس پہ کوئی نشانِ پا، مرے سامنے ہے وہ رہ گزر
مرے چارہ گر، مرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر!
یہ جو زخم زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے مرے چار سُو
یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ، سبھی راستوں میں رُکا ہوا
نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا، اسے حکم دے، یہ کرے سفر
مرے چارہ گر، مرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر!!

(امجد اسلام امجد)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف