عشق ‏یاد ‏رکھتا ‏ہے ‏از ‏سیماب ‏ظفر

چھپا رکھو تم اپنے سچ
انہیں مت کھولنا
مجھ پر
یہ پکڑو رنگ اور ان رات دن کو خوشنما کر دو!

اٹھاؤ ایک چہرہ اور اس کو ہجر پہنا دو
یہ دُوجے نام کا لاشہ اٹھاؤ
اور اس پر اشک لکھ ڈالو
وہ سب سے آخری کونے میں لٹکی یاد کو تھامو
اور اس بے رُوح بت سے اک نویلی نظم بُن لینا- - -
سبھی بےجان جسموں سے انوکھے لفظ چُن لینا - - 

مبارک ہو! کہ اب بیتے ہوئے سب کم نما، بےآرزو، بدبخت لمحوں کو
تمہارے خامۂ بےمثل کی تحریرِ خوش رُو "عشق" لکھتی ہے!

 تم اپنے سچ چھپا رکھنا
بچا رکھنا
سجا رکھنا..
مگر اے عشق کے ہِجّوں سے ناآگاہ کاتب!
عشق اپنے مجرموں کی ذات کے ہِجّے
ہمیشہ یاد رکھتا ہے!!

(سیماب ظفر)

Comments

Popular posts from this blog

دل ‏بنا ‏دیا

مری ‏بات ‏بیچ ‏میں ‏رہ ‏گئی ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

آدھا ‏رستہ ‏از ‏واصف ‏علی ‏واصف