مجھے ‏مار ‏دیجیے

‎کافر ہوں، سر پھرا ہوں، مجھے مار دیجیے
‎میں سوچنے لگا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎ہے احترامِ حضرتِ انسان میرا دیں
‎بے دین ہو گیا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا
‎میں حد سے بڑھ گیا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎کرتا ہوں اہلِ جبہ و دستار سے سوال
‎گستاخ ہوگیا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎خوشبو سے میرا ربط ہے، جگنو سے میرا کام
‎کتنا بھٹک گیا ہوں! مجھے مار دیجیے

‎معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام
‎میں خواب دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎زاہد، یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روش
‎میں خوب جانتا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎بے دین ہوں، مگر ہیں زمانے میں جتنے دین
‎میں سب کو مانتا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور
‎میں آخری صدا ہُوں، مجھے مار دیجیے

‎میں ٹھیک سوچتا ہوں، کوئی حد مرے لیے
‎میں صاف دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم
‎کیا ظلم کر رہا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎میں عشق ہوں، میں امن ہوں، میں علم ہوں، میں خواب
‎اک درد لادوا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار
‎میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجیے

‎جو زخم بانٹتے ہیں، انہیں زیست پہ ہے حق
‎میں پھول بانٹتا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎ہے امن شریعت، تو محبت مرا جہاد
‎باغی بہت بڑا ہوں، مجھے مار دیجیے

‎بارود کا نہیں، مرا مسلک درود ہے
‎میں خیر مانگتا ہوں، مجھے مار دیجیے

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف