چلو ‏اک ‏بار ‏از ‏ساحر ‏لدھیانوی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں
نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی
نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے
نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے
نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے
تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے
مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں
مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی
تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں
تعارف روگ بن جائے تو اس کا بھولنا بہتر
تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا
وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن
اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا
چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ۔۔

(ساحر لدھیانوی)

Comments

Popular posts from this blog

میلادیوں کے گیارہ اعتراضات و شبہات کے جوابات

ہماری عجیب نفسیات

نعت ‏شریف ‏از ‏پیر ‏مہر ‏علی ‏شاہ ‏علیہ ‏رحمہ