ہم ‏اپنے ‏آپ ‏میں ‏گُم ‏ہیں ‏از ‏سجاد ‏مرزا

ہم اپنے آپ میں گم ہیں

کئی روٹھے ہوئے منظر
بہت نزدیک آ کر بھی
نظر سے دور رہتے ہیں

اجالا جب نہیں ہوتا
اندھیرے کا جگر چیریں
تو آوازیں سنائی دیں

کبھی کوئل کی کوکو میں
کبھی چڑیوں کی چوںچوں میں
پروں کی پھڑپھڑاہٹ میں
محبت جاگ جاتی ہے

صدائیں بن کے رستوں میں
اگر پاؤں سے لپٹیں تو
بدن مخمور ہو جائے
اندھیرا دور ہو جائے

وہی روٹھے ہوئے منظر
نظر میں تازگی بھر کر
مسافر کو بلاتے ہیں

مسافر آنکھ کیا کھولے
نئی تہذیب نے اس کو
کیا بے دست و پا ایسا
کہیں وہ جا نہیں سکتا

مناظر لاکھ چاہیں بھی
کوئی ان کی طرف دیکھے
مگر ایسا نہیں ممکن
ہم اپنے آپ میں گم ہیں!!

(سجّاد مرزا)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف