تیرے ارد گررد وہ شور تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے یقین سا کرگیا تیرا بات بات پہ ٹوکنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی ترے شہر میں مرے ہم سفر، وہ دکھوں کا جم غفیر تھا مجھے راستہ نہیں مل سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی وہ جو خواب تھے مرے سامنے ، جو سراب تھے مرے سامنے میں انہی میں ایسے الجھ گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی عجب ایک چپ سی لگی مجھے ، اسی ایک پل کے حصار میں ہوا جس گھڑی ترا سامنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی کہیں بے کنار تھیں خواہشیں ، کہیں بے شمار تھیں الجھنیں کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی تھا جو شور میری صداؤں کا ، مری نیم شب کی دعاؤں کا ہوا ملتفت جو مرا خدا ، مری بات بیچ میں رہ گئی مری زندگی میں جو لوگ تھے ، مرے آس پاس سے اٹھ گئے میں تو رہ گیا انہیں روکتا ، مری بات بیچ میں رہ گئی تری بے رخی کے حصار میں ، غم زندگی کے فشار میں مرا سارا وقت نکل گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی مجھے وہم تھا ترے سامنے ، نہیں کھل سکے گی زباں مری سو حقیقتا بھی وہی ہوا ، مری بات بیچ میں رہ گئی امجد اسلام امجد
ہندوستان میں ایک جگہ مشاعرہ تھا۔ ردیف دیا گیا: "دل بنا دیا" اب شعراء کو اس پر شعر کہنا تھے۔ سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف کو یوں استعمال کیا: اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس ہوگئی ، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟ لیکن جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہوگیا۔ انہوں نے کہا: بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا۔
آدھا رستہ آدھا رستہ طے کر آیا اب کیا سوچ رہا ہے آخر انجانی منزل کی جانب چلتا جائے یا واپس ہو جائے راہی! سوچ کے بھی انداز عجب ہیں سوچ کے ہی آغاز کِیا تھا سَو رستوں میں ایک چُنا تھا اور اب سوچ ہی روک رہی ہے آگے بھی کُچھ تاریکی ہے! لَوٹ کے جانا بھی مُشکِل ہے! سوچ کا سُورج ڈُوب رہا ہے! ایسے راہی کی منزل ہے __ آدھا رستہ!! (واصف علی واصف)
Comments
Post a Comment