آقا آپ کی گود نہیں چاہیئے، قدموں میں جگہ دیجیے نا!
#آقا_آپ_کی_گود_نہیں_چاہیے
#قدموں_میں_جگہ_دیجئے_نا
جنگ اپنے عروج پر تھی اور کفار تھے کہ بڑھے چلے آ رہے تھے ، ان کا ہدف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خیمہ تھا - آپ نے فرمایا :
" من رجل یشتری لنا نفسہ "
ہاں کون آج ہم سے آج اپنی جان کو سودا کرے گا ؟
لپک کے پانچ انصاری آگے بڑھے ، بھلے ایسا نفع مند کاروبار کون چھوڑتا ہے ؟
مقام نبوت کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو گئے ، کہ تلوار ہو یا تیر مصیبت ہو یا کوئی دکھ ، محبوب کے پاؤں کی گرد کو بھی نہ چھو سکے ...ہم جو ہیں کہ :
جو آئے آئے ہم دل کشادہ رکھتے ہیں
ایک کے بعد ایک شہید ہوتے چلے گئے - اب کے ایک بہت دبلا پتلا انصاری نوجوان آگے بڑھا کہ چار ساتھی جنت مقیم ہو چکے اور اکیلا بچا ، آنکھیں کہہ رہی تھیں کہ حضور میرے تن بدن کو نہ دیکھیے میری اندر چھپی اپنی محبت کو دیکھئے گا .... ہاں حضور آپ کے قدموں میں مر جانے کو جی چاہتا ہے سو دور نہ کیجئے - اذن ہوا ، اجازت ملی اور زیاد خیمہ رسول کے سامنے چٹان بن کے کھڑے ہو گئے -
تیر پر تیر آتے گئے اور زیاد خود ہی ڈھال بن کے روکتے گئے - لیکن کب تک آخر یہ ڈھال ڈھے گئی ..زیاد گر گئے -
صحابہ کو خبر ہوئی کہ خیمہ نبی کے سامنے یہ ماجرا گزر گیا ، بھاگے ہوۓ آئے ، اور کفار کو پسپا کیا ...زیاد ابن سکن کہ انہی پانچ جان نثاروں میں تھے ، جاں بلب تھے ، نیم کھلی آنکھوں سے محبوب کو دیکھا ، سلامتی جن کی عزیز تھی ان کو جب سلامت دیکھا تو اطمینان کی لہر دل سے ہوتی ہوئی چہرے پر اتر آئی - ہاں زیاد نے جب دیکھا کہ اس کے نبی سلامت ہیں تو چہرہ پرسکون ہو گیا -
جگ تے تو جیویں تے تیری آس تے میں جیواں
رسول رحمت نے فرمایا :
" ادنوہ منی "
"اسے میرے قریب کر دو "
نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم نے وفور محبت سے زیاد کو اپنے پاس کر لیا ،اب زیاد کا سر آقا کی گود میں تھا ..نہیں تو ، محض ایسا تو نہیں تھا ..زیاد کا سر تو جنت میں تھا ، لیکن مزید کی تمنا ہاں مزید کی تمنا اور بہت مزید کی تمنا .............
زیاد لیکن کچھ اور کی تمنا میں تھے -
تھا نا بھولا بھالا زیاد ، کہ اس سے بڑھ کے مزید کیا ہو سکتا تھا ؟؟؟
لیکن یارو ، ہم اور آپ محبتوں کی ان گہرایوں کو کیا جانیں جہاں سے زیاد گذر گذر گئے -
ہاں دوستو ! اس سے بڑھ کے بھی زیاد نظر میں اک مقام تھا ، ایک جگہ تھی نا کہ جو نبی کی گود سے بھی بڑھ کے تھی -----
نبی کا لمس ملا ، آقا نے زیاد کو چھوا تو دل کی ناتمام حسرتیں الفاظ بن کر لبوں پر آ گئیں - محبت آخری دموں کی تمنا بن کے لبوں پر آ گئی :
" آقا قدموں میں جگہ دیجئے نا "
صحابہ آگے بڑھے ، زیاد رضی اللہ عنہ کو سنبھالا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں مبارک آگے بڑھائے ، اور زیاد نے رخسار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں پر رکھ دیے -
حدیث کے الفاظ ہیں :
"فمات ، و خدہ علی قدم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "
ہاں جب آخری سانس نکلے ، جب زیاد اس دنیا سے رخصت ہووے تو آپ کے رخسار نبی کے قدموں پر تھے -
جہاں تیرا نقش قدم دیکھتے ہیں
خیابان خیابان ارم دیکھتے ہیں
..زیاد کیسے پرسکون ہو کے جنتوں کو جا رہے تھے .....
کاش کاش کاش ...ہم وہ خاک ہی ہو جاتے جس میں زیاد پڑے تھے اور جنت کی اور سفر کر رہے تھے ...کاش کاش -
(ابوبکر قدوسی)
Comments
Post a Comment