تم اداس کیونکر ہو؟ از فرحت عباس شاہ
تُم اُداس کیونکر ہو؟
ہر کڑی مسافت تو
میرے نام لکھی ہے
درد کی ریاضت تو
میرے دل کا حصہ ہے
جاں گُسل جُدائی تو
کُچھ دِنوں کا قصہ ہے
تُم اُداس کیوںکر ہو؟
اب گُزر بھی جانے دو
کارواں اُداسی کا
کیوں ملال کرتے ہو
رائیگاں اُداسی کا؟
کیوں بسائے بیٹھے ہو
اِک جہاں اُداسی کا؟
تُم اُداس کیونکر ہو؟
تِیرگی کی وحشت میں
تُم تو اِک ستارا ہو!
درد کے سمندر کا
تُم تو خود کنارا ہو!
زندگی کے ہونے کا
تُم تو استعارہ ہو!
تُم اُداس کیونکر ہو؟
روشنی تو تُم سے ہے
زندگی تو تُم سے ہے
تُم بہار موسم ہو!
دشت میں خزاٶں کے
تُم نمُو کی صُورت ہو!!
موسموں کی شِدت سے
محوِ یاس کیونکر ہو؟
تُم اُداس کیونکر ہو؟؟
(فرحت عباس شاہ)
Comments
Post a Comment