بوچھاڑ از ‏گلزار

بوچھاڑ

مَیں کچھ کچھ بھولتا جاتا ہُوں اب تجھ کو
ترا چہرہ بھی دُھندلانے لگا ہے اب تخیّل میں
بدلنے لگ گیا ہے اب
وہ صبح و شام کا معمول جس میں
تجھ سے ملنے کا بھی اِک معمول شامل تھا
تِرے خط آتے رہتے تھے
تو مجھ کو یاد رہتے تھے
تری آواز کے سُر بھی
تری آواز کو کاغذ پہ رکھ کے
میں نے چاہا تھا کہ ”پِن“ کر لُوں
و ہ جیسے تتلیوں کے پَر
لگا لیتا ہے کوئی اپنی البم میں!
ترا ”ب“ کو دَبا کر بات کرنا
”واؤ“ پر ہونٹوں کا چھلّا گول ہو کر
گُھوم جاتا تھا!
بہت دن ہو گئے دیکھا نہیں، نہ خط ملا کوئی!
بہت دن ہو گئے، سچّی!!
تِری آواز کی بوچھاڑ میں
بِھیگا نہیں ہُوں مَیں

(گُلزار)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف