تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں از شاہین مفتی
تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں
تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں
تماشا گر کی قسمت کیا، بس اک تالی یا پھر گالی!
تماشا حرفِ بےمعنی
یہ اک تمثیلِ لایعنی
تماشا گر جو ہوتے ہم کسی دربار میں ہوتے
سحر ہونے سے پہلے مطلعِ انوار میں ہوتے
کسی گُل کی ہتھیلی پر، کسی دستار میں ہوتے
ہمارے بھی قدم اس وقت کی رفتار میں ہوتے
بہت ممکن ہے اک دن ہم نگاہِ یار میں ہوتے
ہمارے تذکرے پھر حلقۂ اغیار میں ہوتے
بصد سامانِ رسوائی کسی بازار میں ہوتے
کبھی زنداں، کبھی زنجیر کی جھنکار میں ہوتے
گزرتی کیا جو پھر ہم حالتِ انکار میں ہوتے؟
تماشا ختم ہوتے ہی کسی دیوار میں ہوتے!!
غنیمت ہے کھڑے ہیں اس ہجومِ نا تشخص میں
نہ کوئی دیکھنے والا، نہ کوئی پوچھنے والا!
تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں!!
(شاہین مفتی)
Comments
Post a Comment