موپساں ‏کے ‏افسانے ‏"خودکشی" ‏سے ‏اقتباس

گزرتی عمر کے ساتھ میں جدوجہد کی لاحاصلی سے، زندگی کے اس بھیانک راز سے، کسی حد تک مفاہمت کر چکا تھا۔ ۔ ۔ لیکن آج رات کھانے کے بعد اس کائنات کی بےوقعتی ایک نئی روشنی میں میرے سامنے آشکارہ ہوئی۔
کبھی میں بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ میں دنیا کی ہر چیز سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ راہ چلتی کوئی خوبصورت عورت ۔ ۔ ۔ گلیوں بازاروں کی رونق ۔ ۔ ۔ میرا گھر ۔ ۔ ۔ مجھے تو اپنے لباس کی تراش خراش میں بھی دلچسپی ہوا کرتی تھی۔ لیکن ان سب مناظر کی تکرار نے میرا دل بیزاری سے بھر دیا اور میں یوں متنفّر ہو گیا جیسے لگاتار روزانہ ایک ہی ڈرامہ دیکھنے سے اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ پچھلے تیس سال سے میں ایک ہی وقت پر بیدار ہوتا ہوں اور پچھلے تیس سال سے میں ایک ہی وقت پر ایک ہی ریستوراں میں وہی ایک ہی کھانا کھاتا ہوں جو مختلف ویٹر میرے سامنے لا رکھتے ہیں۔
پھر میں نے سفر کرنے کے بارے میں سوچا۔ لیکن انجانی جگہوں پر مجھے ایسے اکیلے پن کا احساس ہوا کہ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں نے خود کو اتنا اکیلا محسوس کیا ۔ ۔ ۔ اس دنیا میں اتنا چھوٹا محسوس کیا کہ فوراً واپس اپنے شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ لیکن وہاں بھی وہی فرنیچر جو تیس سال سے اسی جگہ پر پڑا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میری آرام کرسی کی فرسودگی جو میں نے کبھی بالکل نئی خریدی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ہر رات میرے گھر کی وہی خوشبو ۔ ۔ ۔ ۔ کیونکہ وقت گزرنے کے ساتھ ہر گھر سے بھی ایک مخصوص خوشبو آنے لگتی ہے۔ یہی چیزیں اور لاتعداد مزید چیزیں مجھے بیزار کر چکی ہیں اور ۔ ۔ ۔ اور اب تو میں اس بیزاری میں زندہ رہنے سے بھی بیزار ہو چکا ہوں۔ ہر چیز ویسے ہی پُر ملال انداز میں ایک لامُتناہی دائرے میں گھوم رہی ہے ۔ ۔ ۔ جیسے میں اپنے دروازے میں چابی گھماتا ہوں ۔ ۔ ۔ جس جگہ ہمیشہ ماچس کی ڈبیہ پڑی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ کمرے کی بتّی جلاتے ہی سب سے پہلے میری نظر جس چیز پر پڑتی ہے ۔ ۔ ۔ ۔ میرا جی چاہتا ہے کہ کھڑکی سے باہر چھلانگ مار ڈالوں، کہ شاید اسی طرح ان واقعات سے جان چھوٹ جائے جن سے ویسے نجات نا ممکن ہے۔ ہر روز صبح شیو بناتے ہوئے میرے دل میں اپنا گلا کاٹ ڈالنے کی ایک شدید خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اورگالوں پر صابن لگا ہوا میرا چہرہ جسے میں روزانہ آئینے میں دیکھتا ہوں ۔ ۔ ۔ ہمیشہ وہی ۔ ۔ ۔ اسے دیکھ کرحزن و ملال سے بہت مرتبہ میرے آنسو نکل آتے ہیں۔
اب مجھے ان لوگوں سے ملنے سے نفرت ہو گئی ہے جن کو میں کبھی خوشی اور اہتمام سے ملا کرتا تھا۔ میں ان کو اتنی اچھی طرح سے جان چکا ہوں کہ مجھے علم ہو گیا ہے کہ وہ کیا کہنے والے ہیں اور میں کیا جواب دینے والا ہوں۔ ان کی ایک ایک سوچ جس سانچے میں ڈھلی ہوئی ہے میں اس سے واقف ہوں۔ ان کے استدلال کا کوئی پہلو میرے لئے نیا نہیں ہے۔ ہر دماغ کسی سرکس کی طرح ہے جس میں وہی ایک بےچارہ گھوڑا ایک گول چکر میں لگاتار دلکی چال چلتا رہتا ہے۔

فرانسیسی افسانہ نگار گائی دی موپاساں Guy De Maupassant کے افسانے "خود کشی" [La Suicide] سے اقتباس

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف