مَیں فقیر ہُوں
نہ میں تاج ور، نہ وزیر ہوں، میں فقیر ہوں!
نہ فقیہِ شہر، نہ پیر ہوں، میں فقیر ہوں!
تو ضرورتوں کا اسیر ہے، تو امیر ہے
میں محبتوں کا اسیر ہوں، میں فقیر ہوں!
رہِ مستقیم پہ مستقل ہوں میں گام زن
میں تو ایک سیدھی لکیر ہوں، میں فقیر ہوں!
میں ہوں اونچ نیچ سے، ذات پات سے ماورا
نہ صغیر ہوں، نہ کبیر ہوں، میں فقیر ہوں!
میں جو شاعری میں گریز پا زن و زر سے ہوں
نہ ولی و داغ، نہ میر ہوں، میں فقیر ہوں!
میں ہوں کم سخن، مرے اشک ہیں مرے مرثیے
نہ انیس ہوں، نہ دبیر ہوں، میں فقیر ہوں!
مجھے مت بتا ہمہ اُوست رستۂ دار ہے!
میں علیم ہوں، میں خبیر ہوں، میں فقیر ہوں!
مجھے جاہ و حشمت و اقتدار نہ پیش کر
تجھے کہہ چکا ہوں، فقیر ہوں، میں فقیر ہوں!!
Comments
Post a Comment