ایک ‏کمرۂ ‏امتحان ‏میں ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

ایک کمرۂ امتحان میں

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو
بےخیال ہاتھوں سے
ان بُنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں
یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں

ہر طرف کَن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں
دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں
شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے
بے نشاں جوابوں کا کچھ پتا ہی مل جائے
مجھ کو دیکھتے ہیں تو
یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں
دائرے بناتے ہیں
جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں

اس طرح کے منظر میں
امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا
نقل کرنے والوں کے
نت نئے طریقوں سے
آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا!
کس طرف سے جانے یہ
آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے
سینکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے

وقت کی عدالت میں
زندگی کی صورت میں
یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے
کس نے یہ بنایا ہے
کس لئے بنایا ہے
کچھ سمجھ میں آیا ہے؟
زندگی کے پرچے کے
سب سوال لازم ہیں، سب سوال مشکل ہیں!

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو
بے خیال ہاتھوں سے
ان بُنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں
حاشیے لگاتا ہوں
دائرے بناتا ہوں
یا سوال نامے کو
دیکھتا ہی جاتا ہوں

(امجد اسلام امجد)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف