ماں از مسعود احمد
ماں
دودھ اور شہد میں گوندھا پہلے
عرشِ بریں کی مٹی کو
اس میں اپنا عکس ملایا
نور کی بارش میں نہلایا
ممتا کا پیکر پہنایا
پھر ایسا شاہکار بنایا
جو دھرتی پر ماں کہلایا
قدرت کی فنکاری ماں ہے
پھولوں کی پھلواری ماں ہے
اس سا کوئ اور کہاں ہے؟
ماں کا رشتہ سب سے افضل
خالق نے تخلیق کیا ہے
پیار محبت مہر وفا اخلاص سے مالا مال کیا ہے
اپنے بعد خدا نے اونچا ممتا کا اقبال کیا ہے
چار کتابوں سے بھی پہلے
جیسے جسم میں جاں اتری ہے
اس دھرتی پے ماں اتری ہے
جس کی کوکھ سے جنم لیا ہے
ہر ایک پیر پیمبر نے
سادھو سنت فقیر اور جوگی
بے راگی بنجارے روگی
صوفی قطب ابدال ولی سب
ممتا کے مرحونِ منت
ماں جس کے قدموں میں جنت
ماں جس کی انکھوں میں ٹھنڈک
سر تا پیر محبت ہے یہ
شفقت ہے یہ چاہت ہے یہ
رحمت برکت راحت ہے یہ
عزت ہے یہ حرمت ہے یہ
عجز نیاز کی صورت ہے یہ
قدرت کا بہروپ ہے ممتا
رب کا دوسرا روپ ہے ممتا
دھوپ کڑی میں چھاؤں جیسی
وسعت میں دریاؤں جیسی
کون سی ہستی ماؤں جیسی؟
جسم سے جیسے جاں کا رشتہ
آئت سے قراں کا رشتہ
وہ بچے سے ماں کا رشتہ
ماں چاہے انسانوں کی ہو
جنگل کے حیوانوں کی ہو
چاہے کسی پرندے کی ہو
یا پھر کسی درندے کی ہو
ماں تو ماں ہے
ممتا میں اتنی طاقت ہے
وہ ننھی سی چڑیا کو بھی
پل میں باز بنا سکتی ہے
وہ اپنے بچوں کی خاطر
موت سے جان لڑا سکتی ہے
کوؤں کی یلغار کے آگے
سینہ تان کے آسکتی ہے
ہر مشکل میں فاختہ اپنے بچوں کے اگے ہوتی ہے
ماں وہ ہستی
جس کی گود ہے اطلس اور کم خواب سے بڑھ کر
انجم اور ماہتاب سے بڑھ کر
پیار کا موجیں مارتا دریا
ہر اک ماں کا سینہ ہے یہ
ممتا کا دل کھول کے دیکھوں
جیسے شہر مدینہ ہے یہ
اس دھرتی کا کونہ کونہ
اس مٹی کا ذرہ ذرہ
ممتا کے اوصاف کا شاہد
ماں چاہے مشرق کی ماں ہو
ماں چاہے مغرب کی ماں ہو
قربانی ایثار کی مورت
شفقت کی احساس کی صورت
چھاتی سے لپٹا کر بچے
خود گیلے پر سونے والی
صورت اور کردار کی دیوی
ممتا عین فرشتوں جیسی
کب ہے دوسرے رشتوں جیسی
دنیا میں اکلوتی نعمت
صرف اور صرف بہشتوں جیسی
ماں کی گود میں سر رکھتے ہی
کیسے ہمیں اماں ملتی ہے
ایسے کوئ کب ملتا ہے؟
جیسے اپنی ماں ملتی ہے
بچوں کے چہرے پڑھتی ہے
ان کے ہر اک دکھ اور سکھ کا
سو فیصد اندازہ ماں ہے
دور شفق کے چہرے پر وہ
صبحِ نو کا غازہ ماں ہے
جنت کا دروازہ ماں ہے
چہرے کی تقدیس کو دیکھوں
پھولوں سے بھی تازہ ماں ہے
ممتا کے قدموں سے اونچا
کوئ اور مقام نہیں ہے
ماں سے بڑھ کر اس دنیا میں
کوئ دوسرا نام نہیں ہے
ممتا کو تخلیق کیا
قدرت نے اپنے ہاتھوں سے
اس میں اپنا عکس ملایا
نور کی بارش میں نہلایا
چار کتابوں سے بھی پہلے
جیسے جسم میں جاں اتری ہے
اس دھرتی ہر ماں اتری ہے
مسعود احمد
Comments
Post a Comment