محبت لفظ تھا میرا ‏از ‏عرش ‏صدیقی

مَحَبَّت لفظ تھا میرا

مَیں اُس شہرِ خرابی میں فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں
اُسے گلیوں میں، سڑکوں پر
گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈتا تنہا
کہ وہ مل جائے تو تُحفہ اُسے دُوں اپنی چاہت کا

تمنا میری بر آئی، کہ اِک دن ایک دروازہ کُھلا
اور مَیں نے دیکھا وہ شناسا چاند سا چہرہ
جو شادابی میں گُلشن تھا

مَیں اک شانِ گدایانہ لیے اُس کی طرف لپکا
تو اس نے چشمِ بےپروا کے ہلکے سے اشارے سے مجھے روکا
اور اپنی زلف کو ماتھے پہ لہراتے ہوئے پوچھا:
"کہو اے اجنبی سائل،
گدائے بے سر و ساماں،
تمہیں کیا چاہیئے ہم سے؟"

مَیں کہنا چاہتا تھا
"عُمر گزری جس کی چاہت میں
وُہی جب مِل گیا تو اور اب کیا چاہیئے مُجھ کو!؟"

مگر تقریر کی قُوّت نہ تھی مُجھ میں!
فقط اِک لفظ نِکلا تھا لبوں سے کانپتا، ڈرتا
جِسے اُمید کم تھی اُس کے دِل میں بار پانے کی!!

"مَحَبَّت" لفظ تھا میرا
مگر اُس نے سُنا "روٹی"!!!

(عرش صدیقی)

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف