اک ‏نظم ‏ترے ‏دروازے ‏پر

اک نظم ترے دروازے پر

سانپ سے میں نے پوچھا "ارے کم نظر!
بین جوگی نے پوری بجائی نہ تھی
اپنے بل سے تڑپتے مچلتے ہوئے، رقص کرتے ہوئے
کس لیے قید تو خود بخود ہو گیا؟
اس پٹاری کے زندان میں سو گیا!"

سانپ کہنے لگا،
"ساری دنیا میں جتنے بھی دروازے ہیں
سب کی اک آن ہے
سب کی اک شان ہے
سب کا اک ظرف ہے
سب کی اک بات ہے
جتنا دروازہ ہو، اتنی خیرات ہے
ایک میں ہوں کہ اتنی جگہ بھی نہیں
لیٹ کر سو سکوں
مطمئن ہو سکوں
میرے دن رات کیا؟
میری اوقات کیا؟
ایک دن اک سپیرا ادھر آ گیا
آس لے کر مرے اجڑے گھر آ گیا
اپنے گھر کی مجھے لاج رکھنی پڑی
لذت_ قید بھی چاہے چکھنی پڑی."

اے مرے دل ربا! اے مرے بے وفا!
سانپ کی بات سن کر میں چکرا گیا!!
تیرا دروازہ پھر مجھ کو یاد آ گیا!!

Comments

Popular posts from this blog

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

ہر ‏قسم ‏کے ‏شر ‏اور ‏بیماری ‏سے ‏حفاظت ‏کی ‏مسنون ‏دعائیں

افتخار ‏حسین ‏عارف