سنتے تھے
سمجھ کے اپنے بڑوں کی نِشانی ۔۔۔ سٌنتے تھے
جدید لوگ بھی غزلیں پٌرانی سٌنتے تھے
کِسی کو ہم سے زیادہ خبر ہماری تھی
سو اپنا حال ہم اٌس کی زبانی سٌنتے تھے
کچھ اِس لئے بھی غنیمت تھی گھر میں ٹین کی چھت
ہم اِس وسیلے سے بارش کا پانی سٌنتے تھے
ہماری آنکھ ۔۔۔۔۔ سماعت کا کام دیتی تھی
ہم اٌس کو دیکھتے رہتے تھے ۔۔۔۔یعنی سٌنتے تھے
محاذ کھولا ہوا تھا کِسی نے میرے خِلاف
اور اٌس کی بات مِرے یار جانی سٌنتے تھے
الاؤ میں ہی کہیں جل بٌجھا وہ وقت ۔۔۔۔ کہ جب
کوئی سٌناتا تھا ۔۔۔۔ اور ہم کہانی سٌنتے تھے
Comments
Post a Comment