Posts

میلادیوں کے گیارہ اعتراضات و شبہات کے جوابات

ان گیارہ اعتراضات شبہات كے جوابات جوكہ عید میلاد ﷺ منانے كے قائل احباب عام طور پر اٹھاتے ہیں: پہلے وہ شبہات اور اعتراضات ملاحظہ فرمائیں: ::: 1⃣ ::: ہر سال جشن سعودیہ منایا جاتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 2⃣ ::: ہر سال غسل کعبہ ہوتا ہے جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 3⃣ ::: ہر سال غلاف کعبہ تبدیل کیا جاتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 4⃣ ::: غلاف کعبہ پر آیات لکھی جاتی ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 5⃣ ::: مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں تہجد کی اذان ہوتی ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 6⃣ ::: مدارس میں ختم بخاری شریف ہوتا ہے جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 7⃣ ::: سیرت النبی ﷺ کے اجتماعات منعقد ہوتے ہیں جس کا قران و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 8⃣ ::: ہر سال تبلیغی اجماع ہوتا ہے اور چلے لگائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 9⃣ ::: صحابہ کرام علیہم الرضوان کے وصال کے ایام منائے جاتے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ۔ ::: 🔟 ::: جشن دیو بند و اہلحدیث منایا جاتا ...

عذابِ وحشتِ جاں کا صلہ نہ مانگے کوئی از افتخار حسین عارف

عذابِ وحشتِ جاں کا صِلہ نہ مانگے کوئی نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں عجیب رسم چلی ہے، دُعا نہ مانگے کوئی تمام شہر مُکرّم، بس ایک مُجرِم میں سو میرے بعد مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی کوئی تو شہرِ تذبذُب کے ساکِنوں سے کہے نہ ہو یقین تو پھر مُعجزہ نہ مانگے کوئی عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو، بہار بھی آئے اِس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی (افتخار عارف)

مثالِ دستِ زلیخا تپاک چاہتا ہے از احمد فراز

مثالِ دستِ زُلیخا تپاک چاہتا ہے یہ دل بھی دامنِ یُوسُف ہے، چاک چاہتا ہے دُعائیں دو مِرے قاتِل کو تُم، کہ شہر کا شہر اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے فسانہ گو بھی کرے کیا، کہ ہر کوئی سرِ بزم مآلِ قصۂ دِل دردناک چاہتا ہے اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں اور اُس کا دھیان بہت اِنہماک چاہتا ہے ذرا سی گردِ ہوس دِل پہ لازمی ہے فراز وہ عِشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے! (احمد فراز)

Why should you read "Waiting For Godot"? - Iseult Gillespie

Image

Waiting for Godot

Image

دنیا ‏تو ‏محض ‏وہم ‏اور ‏خیال ‏ہے

انگلستان کے بہت بڑے فلسفی بریڈلے نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب Appearance and Reality میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ "جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے۔" جو کوئی محض آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں میں الجھ گیا وہ درحقیقت باطل (falsehood) کا شکار ہے، جب تک کہ اس ظاہر کے پردے کو چیر کر باطن کو نہ دیکھا جائے۔ اقبال نے کہا ہے  گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں عربی کا ایک شعر ہے كُلٌّ مَّا فِى الْكَوْنِ وَهْمٌ اَوْ خَيَالٌ اَوْ عُكُوْسٌ فِى الْمَرَايَا اَوْ ظِلَالٌ "کائنات میں یہ جو کچھ ہے وہم ہے یا خیال ہے، یا جیسے شیشوں کے اندر عکس ہوتا ہے یا جیسے سایہ ہوتا ہے۔"

ایک ‏کہانی ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

ایک کہانی میں تنہا تھا، سرد ہوا تھی رات کے پچھلے پہر کی کالی خاموشی تھی پیڑوں کے چہروں پہ اک بےنام تحیر تھا جیسے وہ میرے پیچھے کوئی دشمن دیکھ رہے ہوں دور دور تک چاروں جانب ویرانی کا جال تنا تھا میں اس منظر کی ہیبت سے خائف تھا اور اپنے دل میں سوچ رہا تھا "آگے میرے دوست کھڑے ہیں، جنگل کے اس پار نہایت بےچینی سے میرا رستہ دیکھ رہے ہیں، ان کی رس میں ڈوبی باتیں، چاہت سے معمور نگاہیں پھیلی باہیں میرے غم کا مرہم ہوں گی سفر صعوبت سن کر ان کی آنکھیں شبنم شبنم ہوں گی جب میں ان کو وہ سب چیزیں جو میں جنوں اور دیووں سے لڑ کر لایا ہوں، دوں گا تو ان کے چہرے کھل اٹھیں گے وہ پوچھیں گے! ......" ابھی میں دل میں ان کے سوالوں کے جملے ہی سوچ رہا تھا یکدم مجھ پر جانے کہاں سے کچھ سائے سے ٹوٹ پڑے، میرے سینے اور کندھوں میں ان کے ٹھنڈے خنجر اترے، خون بہا تو میں نے بچنے کی کوشش میں اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے لیکن میرے ہاتھ نہیں تھے! میری آنکھوں کے آگے سے ساری چیزیں ڈوب رہی تھیں، سائے مجھ پر جھپٹ جھپٹ کر وہ سب چیزیں لوٹ رہے تھے جن کی خاطر میرے ساتھی جنگل کے اس پار کھڑے تھے! یکدم اک بجلی سی چمکی میں نے ان سایو...

سوال ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

سوال آسمانوں سے کوئی بشارت نہیں اور زمیں گنگ ہے وقت اک بیوہ ماں کی طرح سوگ میں مبتلا ہے __ ہوا سسکیاں لے کے چلتی ہے کالی ہوا خواہشوں کے کنول درد کی جھیل سے سر اٹھاتے نہیں خواب تک بند آنکھوں میں آتے نہیں.. ساری سچی کتابوں میں یہ درج ہے ایسے حالات میں آسماں سے نبی یا تباہی زمیں کی طرف بھیجے جاتے رہے ہیں مگر ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے نبی اب نہیں آئیں گے!! امجد اسلام امجد

آورد ‏از ‏عبدالمجید ‏امجد

آورد دھیان کا جب بھی کوئی پٹ کھولا "میری بات نہ کہہ"، دل بولا دل کی بات کہی بھی نہ جائے ضبط کی ٹیس سہی بھی نہ جائے نظم میں کس کا ذکر کروں اب فکر میں ہوں، کیا فکر کروں اب ایک عجب الجھن میں گھرا ہوں کیا سوچوں، یہ سوچ رہا ہوں!! عبدالمجید امجد

Like as the damask rose you see

Like as the damask rose you see, Or like the flower on the tree, Or like the dainty flower in May, Or like the morning of the day, Or like the sun, or like the shade, Or like the gourd that Jonas had; E'en such is man, whose thread is spun, Drawn out and cut, and so is done. If none can scape Death's dreadful dart, If rich and poor his beck obey, If wise, if strong, if all do smart, Then I to scape shall have no way. O grant me grace, O God, that I, My life may mend since I must die..