Posts
دنیا تو محض وہم اور خیال ہے
- Get link
- X
- Other Apps
انگلستان کے بہت بڑے فلسفی بریڈلے نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب Appearance and Reality میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ "جو کچھ نظر آتا ہے وہ حقیقت نہیں ہے، بلکہ حقیقت اس کے پیچھے ہے۔" جو کوئی محض آنکھوں سے نظر آنے والی چیزوں میں الجھ گیا وہ درحقیقت باطل (falsehood) کا شکار ہے، جب تک کہ اس ظاہر کے پردے کو چیر کر باطن کو نہ دیکھا جائے۔ اقبال نے کہا ہے گاہ مری نگاہِ تیز چیر گئی دلِ وجود گاہ الجھ کے رہ گئی میرے توہمات میں عربی کا ایک شعر ہے كُلٌّ مَّا فِى الْكَوْنِ وَهْمٌ اَوْ خَيَالٌ اَوْ عُكُوْسٌ فِى الْمَرَايَا اَوْ ظِلَالٌ "کائنات میں یہ جو کچھ ہے وہم ہے یا خیال ہے، یا جیسے شیشوں کے اندر عکس ہوتا ہے یا جیسے سایہ ہوتا ہے۔"
ایک کہانی از امجد اسلام امجد
- Get link
- X
- Other Apps
ایک کہانی میں تنہا تھا، سرد ہوا تھی رات کے پچھلے پہر کی کالی خاموشی تھی پیڑوں کے چہروں پہ اک بےنام تحیر تھا جیسے وہ میرے پیچھے کوئی دشمن دیکھ رہے ہوں دور دور تک چاروں جانب ویرانی کا جال تنا تھا میں اس منظر کی ہیبت سے خائف تھا اور اپنے دل میں سوچ رہا تھا "آگے میرے دوست کھڑے ہیں، جنگل کے اس پار نہایت بےچینی سے میرا رستہ دیکھ رہے ہیں، ان کی رس میں ڈوبی باتیں، چاہت سے معمور نگاہیں پھیلی باہیں میرے غم کا مرہم ہوں گی سفر صعوبت سن کر ان کی آنکھیں شبنم شبنم ہوں گی جب میں ان کو وہ سب چیزیں جو میں جنوں اور دیووں سے لڑ کر لایا ہوں، دوں گا تو ان کے چہرے کھل اٹھیں گے وہ پوچھیں گے! ......" ابھی میں دل میں ان کے سوالوں کے جملے ہی سوچ رہا تھا یکدم مجھ پر جانے کہاں سے کچھ سائے سے ٹوٹ پڑے، میرے سینے اور کندھوں میں ان کے ٹھنڈے خنجر اترے، خون بہا تو میں نے بچنے کی کوشش میں اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے لیکن میرے ہاتھ نہیں تھے! میری آنکھوں کے آگے سے ساری چیزیں ڈوب رہی تھیں، سائے مجھ پر جھپٹ جھپٹ کر وہ سب چیزیں لوٹ رہے تھے جن کی خاطر میرے ساتھی جنگل کے اس پار کھڑے تھے! یکدم اک بجلی سی چمکی میں نے ان سایو...
سوال از امجد اسلام امجد
- Get link
- X
- Other Apps
سوال آسمانوں سے کوئی بشارت نہیں اور زمیں گنگ ہے وقت اک بیوہ ماں کی طرح سوگ میں مبتلا ہے __ ہوا سسکیاں لے کے چلتی ہے کالی ہوا خواہشوں کے کنول درد کی جھیل سے سر اٹھاتے نہیں خواب تک بند آنکھوں میں آتے نہیں.. ساری سچی کتابوں میں یہ درج ہے ایسے حالات میں آسماں سے نبی یا تباہی زمیں کی طرف بھیجے جاتے رہے ہیں مگر ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے نبی اب نہیں آئیں گے!! امجد اسلام امجد
Like as the damask rose you see
- Get link
- X
- Other Apps
Like as the damask rose you see, Or like the flower on the tree, Or like the dainty flower in May, Or like the morning of the day, Or like the sun, or like the shade, Or like the gourd that Jonas had; E'en such is man, whose thread is spun, Drawn out and cut, and so is done. If none can scape Death's dreadful dart, If rich and poor his beck obey, If wise, if strong, if all do smart, Then I to scape shall have no way. O grant me grace, O God, that I, My life may mend since I must die..
Silver Birch
- Get link
- X
- Other Apps
Life is always a polarity. If there were no darkness, there would be no light. If there were no trouble, there could never be any peace. If the sun always shone, you would not appreciate it. You have to learn sometimes through conditions that seem a nuisance. One day you will look back and say, "We learned our best lessons not when the sun was shining, but when the storm was at its greatest, when the thunder roared, the lightning flashed, the clouds obscured the sun and all seemed dark and hopeless." It is only when the soul is in adversity that some of its greatest possibilities can be realized. ~ Silver Birch
کوئی تو سیکھے از نیلمہ ناہید دُرّانی
- Get link
- X
- Other Apps
اُداس لوگوں سے پیار کرنا، کوئی تو سیکھے سفید لمحوں میں رنگ بھرنا، کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا، کوئی تو سیکھے کوئی دِکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو میری نگاہوں سے بات کرنا، کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام بن کر اندھیری راتوں میں چاند بننا، کوئی تو سیکھے کوئی پیمبر، کوئی امامِ زماں ہی آئے اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا، کوئی تو سیکھے (نیلمہ ناهيد درانی)
سنتے تھے
- Get link
- X
- Other Apps
سمجھ کے اپنے بڑوں کی نِشانی ۔۔۔ سٌنتے تھے جدید لوگ بھی غزلیں پٌرانی سٌنتے تھے کِسی کو ہم سے زیادہ خبر ہماری تھی سو اپنا حال ہم اٌس کی زبانی سٌنتے تھے کچھ اِس لئے بھی غنیمت تھی گھر میں ٹین کی چھت ہم اِس وسیلے سے بارش کا پانی سٌنتے تھے ہماری آنکھ ۔۔۔۔۔ سماعت کا کام دیتی تھی ہم اٌس کو دیکھتے رہتے تھے ۔۔۔۔یعنی سٌنتے تھے محاذ کھولا ہوا تھا کِسی نے میرے خِلاف اور اٌس کی بات مِرے یار جانی سٌنتے تھے الاؤ میں ہی کہیں جل بٌجھا وہ وقت ۔۔۔۔ کہ جب کوئی سٌناتا تھا ۔۔۔۔ اور ہم کہانی سٌنتے تھے