Posts

موپساں ‏کے ‏افسانے ‏"خودکشی" ‏سے ‏اقتباس

گزرتی عمر کے ساتھ میں جدوجہد کی لاحاصلی سے، زندگی کے اس بھیانک راز سے، کسی حد تک مفاہمت کر چکا تھا۔ ۔ ۔ لیکن آج رات کھانے کے بعد اس کائنات کی بےوقعتی ایک نئی روشنی میں میرے سامنے آشکارہ ہوئی۔ کبھی میں بہت خوش ہوا کرتا تھا۔ میں دنیا کی ہر چیز سے لطف اندوز ہوتا تھا۔ راہ چلتی کوئی خوبصورت عورت ۔ ۔ ۔ گلیوں بازاروں کی رونق ۔ ۔ ۔ میرا گھر ۔ ۔ ۔ مجھے تو اپنے لباس کی تراش خراش میں بھی دلچسپی ہوا کرتی تھی۔ لیکن ان سب مناظر کی تکرار نے میرا دل بیزاری سے بھر دیا اور میں یوں متنفّر ہو گیا جیسے لگاتار روزانہ ایک ہی ڈرامہ دیکھنے سے اکتاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ پچھلے تیس سال سے میں ایک ہی وقت پر بیدار ہوتا ہوں اور پچھلے تیس سال سے میں ایک ہی وقت پر ایک ہی ریستوراں میں وہی ایک ہی کھانا کھاتا ہوں جو مختلف ویٹر میرے سامنے لا رکھتے ہیں۔ پھر میں نے سفر کرنے کے بارے میں سوچا۔ لیکن انجانی جگہوں پر مجھے ایسے اکیلے پن کا احساس ہوا کہ میں خوفزدہ ہو گیا۔ میں نے خود کو اتنا اکیلا محسوس کیا ۔ ۔ ۔ اس دنیا میں اتنا چھوٹا محسوس کیا کہ فوراً واپس اپنے شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ لیکن وہاں بھی وہی فرنیچر جو تیس سال سے اسی جگہ...

True ‎Islamic ‎Brotherhood

An Example of True Islamic Brotherhood It is well known that there was a major civil war between the Companions, may Allah be pleased with all of them. And of the most painful of those wars was the Battle of the Camel in 36 AH, in which one of the most senior and beloved Companions, Ṭalḥa b. `Ubaydillah (r) was martyred on one side, and `Alī b. Abī Ṭālib (r) was the commander of the other side.  After the Battle was over and the dead buried, he called Imrān the son of Ṭalḥa in front of all of the army. He hugged him, caused him to sit on the dais next to him, and expressed his sadness at the death of his father. Alī (r) then quoted a verse from the Quran, "And We shall remove any bitterness from their hearts [as they enter Paradise]. They shall again be brothers, reclining on couches facing each other..[Ḥijr;47], and said, "I am hopeful in Allah's mercy that your father and I shall be an example of this verse!"  Note that for a few years, political differences had b...

تمہیں ‏میں ‏نے ‏بتایا ‏تھا ‏از ‏فریحہ ‏نقوی

تمہیں میں نے بتایا تھا تمہیں میں نے بتایا تھا....  شکستہ پا نہیں،  دیکھو! شکستہ روح بھی ہوں میں... مرے مفلوج ہاتھوں کو حیاتِ نو کا اب کوئی سہارا مت تھما دینا، مری بجھتی ہوئی آنکھوں میں خوابوں کے ستارے مت جلا دینا  بتایا تھا، کہ مدت سے مرے معذور پیروں نے مجھے چلنے، کسی کے ساتھ چلنے کی اجازت تک نہیں دی ہے، مرے ٹوٹے بدن میں زندگی کا ایک بھی ذرّہ نہیں باقی، تمہیں تو سب بتایا تھا.... تمہیں ضد تھی! تمہیں ضد تھی مرے پیروں تلے پلکیں بچھاؤ گے، مری خالی ہتھیلی پر دھڑکتا دل بناؤ گے، تمہیں ضد تھی کہ بجھتی روح پر تم زندگی کی آگ رکھو گے... مری بے نور آنکھوں میں دمکتے خواب رکھو گے... تمہاری ضد کے آگے ہار مانی، پھر سے اک دم توڑتی امید کے دھاگوں سے زخموں کو سِیا، خود کو تمہیں سونپا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مگر جو اب کے ٹوٹا ہے.....!! (فریحہ نقوی)

بوچھاڑ از ‏گلزار

بوچھاڑ مَیں کچھ کچھ بھولتا جاتا ہُوں اب تجھ کو ترا چہرہ بھی دُھندلانے لگا ہے اب تخیّل میں بدلنے لگ گیا ہے اب وہ صبح و شام کا معمول جس میں تجھ سے ملنے کا بھی اِک معمول شامل تھا تِرے خط آتے رہتے تھے تو مجھ کو یاد رہتے تھے تری آواز کے سُر بھی تری آواز کو کاغذ پہ رکھ کے میں نے چاہا تھا کہ ”پِن“ کر لُوں و ہ جیسے تتلیوں کے پَر لگا لیتا ہے کوئی اپنی البم میں! ترا ”ب“ کو دَبا کر بات کرنا ”واؤ“ پر ہونٹوں کا چھلّا گول ہو کر گُھوم جاتا تھا! بہت دن ہو گئے دیکھا نہیں، نہ خط ملا کوئی! بہت دن ہو گئے، سچّی!! تِری آواز کی بوچھاڑ میں بِھیگا نہیں ہُوں مَیں (گُلزار)

سو ‏جاؤ ‏از ‏اسلم ‏کولسری

سانسوں کو نیلام کرو اور سو جاٶ جب ٹھہرا یہ کام، کرو اور سو جاٶ آنسو، دھڑکن، خواب، جوانی، جذبہ، فن سب کُچھ اُس کے نام کرو اور سو جاٶ اپنا مَن سُلگا کر سارے کمرے میں اُس کی خوشبو عام کرو اور سو جاٶ اپنے خُون سے دھو کر سچے جذبوں کو پِھر وقفِ اِلزام کرو اور سو جاٶ اسلمؔ، پِھر سناٹا شور مچائے گا اپنا کام تمام کرو اور سو جاٶ (اسلم کولسری)

تو ‏کیا ‏تم ‏لوٹ ‏جاؤ ‏گے ‏از ‏نبیل ‏احمد ‏نبیل

تو کیا تُم لَوٹ جاٶ گے؟ تُمہیں اِک عُمر آنکھوں کے جھروکوں میں بسایا ہے! دلِ وحشی نے پُوجا ہے تُمہیں برسوں  تواتُر سے! تُمہارے نام کی تختی رکھی سِینے پہ آویزاں! ہمیشہ خود کو رکھا ہے تُمہارا مُنتظِر ہم نے! تُمہارے واسطے ہم نے جہاں کی دُھول چھانی ہے! تُمہاری جستجو میں ہم ہمیشہ دربدر ٹھہرے! بس اِتنی آس پر جاناں ہماری دِل کی وِیرانی کو تُم آ کر سجاٶ گے! تو کیا تُم لَوٹ جاٶ گے؟؟ (نبیل احمد نبیل)

Every Morning

Every morning 🌅 in Africa, a gazelle 🦌 wakes up. It knows it must run faster than the fastest lion 🦁 or it will be killed. Every morning 🌅 a lion 🦁 wakes up. It knows it must outrun the slowest gazelle 🦌 or it will starve to death 💀. It doesn't matter whether you are a lion 🦁 or a gazelle 🦌. When the sun 🌞 comes up, you'd better be running..

صلیبی ‏جنگیں

صلیبی جنگیں مسلم اور کفار کی جنگیں صلیبی جنگیں (انگریزی: Crusades) مذہبی جنگوں کا ایک سلسلہ تھا جسے قرون وسطی میں لاطینی کلیسیا نے منظور کیا، جس میں خاص طور پر مشرقی بحیرہ روم کی مہمات جن کا مقصد ارض مقدسہ کو اسلامی حکمرانی سے آزاد کرانا تھا۔ تعارف 1095ء سے 1291ء تک ارض فلسطین بالخصوص بیت المقدس پر مسیحی قبضہ بحال کرنے کے لیے یورپ کے مسیحیوں نے کئی جنگیں لڑیں جنہیں تاریخ میں “صلیبی جنگوں“ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ جنگیں فلسطین اور شام کی حدود میں صلیب کے نام پر لڑی گئیں۔ صلیبی جنگوں کا یہ سلسلہ طویل عرصہ تک جاری رہا اور اس دوران میں نو بڑی جنگیں لڑی گئیں جس میں لاکھوں انسان قتل ہوئے۔ فلسطین اور بیت المقدس کا شہر عمر ابن الخطاب کے زمانہ میں ہی فتح ہوچکا تھا۔ یہ سرزمین مسلمانوں کے قبضہ میں رہی اور مسیحیوں نے زمانہ دراز تک اس قبضہ کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔ گیارھویں صدی کے آخر میں سلجوقیوں کے زوال کے بعد دفعتاً ان کے دلوں میں بیت المقدس کی فتح کا خیال پیدا ہوا۔ ان جنگوں میں تنگ نظری ،تعصب، بدعہدی، بداخلاقی اور سفاکی کا جو مظاہرہ اہل یورپ نے کیا وہ ان کی پیشانی پر شرمناک داغ ہے۔ اسباب...

Joe Boden Administration

جوبائیڈن انتظامیہ میں پہلی بار 12/ بھارتی نزاد کٹر مسلم دشمن اور 10/ یہودی شامل کئے گئے ہیں، ایسا امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔۔۔  پڑھیں اس پوسٹ کو اور اندازہ لگائیں بائیڈن کی چال کا👇👇 https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=107837527966957&id=100062221290922 نوٹ: اخمنجی تحریکیوں کو خوشی اسی میں ہے کہ ٹرمپوا تو گیا جس نے سعودی عرب کا کچھ نہیں کیا۔۔۔۔ https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=259094905563259&id=111126977026720

تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں از شاہین مفتی

تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں تماشا گر کی قسمت کیا، بس اک تالی یا پھر گالی! تماشا حرفِ بےمعنی یہ اک تمثیلِ لایعنی تماشا گر جو ہوتے ہم کسی دربار میں ہوتے سحر ہونے سے پہلے مطلعِ انوار میں ہوتے کسی گُل کی ہتھیلی پر، کسی دستار میں ہوتے ہمارے بھی قدم اس وقت کی رفتار میں ہوتے بہت ممکن ہے اک دن ہم نگاہِ یار میں ہوتے ہمارے تذکرے پھر حلقۂ اغیار میں ہوتے بصد سامانِ رسوائی کسی بازار میں ہوتے کبھی زنداں، کبھی زنجیر کی جھنکار میں ہوتے گزرتی کیا جو پھر ہم حالتِ انکار میں ہوتے؟ تماشا ختم ہوتے ہی کسی دیوار میں ہوتے!! غنیمت ہے کھڑے ہیں اس ہجومِ نا تشخص میں نہ کوئی دیکھنے والا، نہ کوئی پوچھنے والا! تماشائی تماشا گر سے بہتر ہیں!! (شاہین مفتی)