Posts

لادینیت کے ‏اثرات ‏مشرق ‏میں ‏از ‏محمد ‏فہد ‏حارث

لادینیت کے اثرات مشرق میں ========== مغرب نے جب کلیسا سے بغاوت کی تو اس وقت پروٹیسٹنٹ فرقہ کو سب سے زیادہ عروج نصیب ہوا۔ پروٹیسٹنٹ فرقہ کا اصل مقصد تو اصلاحِ مذہب تھا لیکن اصلاحِ مذہب کے پیچھے خفیہ محرک مذہب کو عقل سے نتھی کرنے کی سعی تھی جس کا بنیادی نکتہ یہ قرار پایا کہ خدا خود بھی قوانینِ فطرت کی پابندی پر مجبور ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دے سکتا جس سے فطرت کے اصولوں کی نفی آتی ہو۔ یہ سوچ مسلسل ارتقائی مراحل میں رہی یہاں تک کہ موجودہ عیسائیت کا ظہور ہوا۔ وہ عیسائیت جو اوپری سطح سے دیکھنے پر لادینیت محسوس ہوتی ہے لیکن اپنے اندر کہیں عیسائیت کے تخم لازم رکھتی ہے۔ وہی عیسائیت جس نے آج تمام یورپی ممالک کو اپنے مذہبی ، سماجی اور معاشرتی مفادات کے لئے اکٹھا کررکھا ہے۔ جس کے مذہبی تشدد کی کارستانیاں کبھی جرمنی میں سننے کو ملتی ہیں تو کبھی برطانیہ میں اور کبھی فرانس کے کسی اخبار میں توہین آمیز خاکوں کی صورت میں۔ قصہ مختصر مغرب جتنا عقل پرست کیوں نہ ہوجائے، اوپر سے دیکھنے میں جتنا لادین کیوں نہ محسو س ہو، اس کو ہمیشہ اپنے لئے ایک مذہب اور تثلیث کی ضرورت رہی۔ ایک ایسی ع...

بہت گہری اداسی ہے از ‏ایوب ‏خاور

بہت گہری اُداسی ہے بہت کچھ کھو گیا ہے بہت گہری اُداسی ہے اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو سینے سے معدے تک بہت آہستگی کے ساتھ اپنی تہہ کے اندر گونجتا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دل کی سطحِ سرخ پر اس بیکرانی سے ٹپکتا ہے کہ میرے ہاتھ کی پوروں میں اور پاﺅں کے تلووں میں اور آنکھوں اور پلکوں، پلکوں کے پیچھے شکستہ ضبط کے ڈوروں میں جکڑی پتلیوں میں عالمِ سکرات بھر دیتا ہے، ہونٹوں کے سرابوں اور رَگوں میں رکتے چلتے خون کے ذرّوں چٹختی ہڈیوں کو دھول کرتا ہے شجر زادی! شجر زادی! تری بانہوں کی شاخوں اورترے ہونٹوں کے ہلکے قرمزی پتّوں کے شبنم ساز سائے میں ٹھہرنے کی تمنّا کو یہ کس رُخ کی تمازت کھا گئی ہے، اے شجر زادی میں کس رُخ سے تجھے دیکھوں اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو....ٹھہرو.... مجھے....کچھ ٹھیک سے....کیفیتِ ِ....دل کو بیاں ....کر....نا.... نہیں آیا ذرا.... میں....سانس....لے لوں! یہ زباں....لکڑی کا ....ٹکڑ....ا.... سا.... مرے جبڑے کی مٹھی میں چٹخنے لگ گیا ہے کیا.... مجھے دو گھونٹ آنسو مل....سکیں ....گے میں کچھ کہنے کی حالت میں تو آ لوں.... ٹھیک ...

APOCALYPSE ‎از ‏فیصل ‏ہاشمی

APOCALYPSE نظر کی آخری سرحد پہ کوئی نقش ہے، جس میں بھنور کی زد پہ کشتی کی مقدر آزما کوشش قیامت خیز لمحوں میں صدا کے مُضمحِل پیکر برہنہ رقص میں مشغول ہیں موہُوم سالوں سے اور اِک سُنسان صحرا سے جرس کی گونج آئی ہے روانہ ہو رہا ہے کارواں گمنام رستوں پر بدلتی صورتِ حالات کی نوحہ سرائی سے مُجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب تم مِل نہیں سکتے!! (فیصل ہاشمی)

ہجر ‏کی ‏مسافت ‏میں‏ ‏از فرحت ‏عباس ‏شاہ

ہجر کی مسافت میں ہجر کی مسافت میں دل تمہارے بن جاناں بار بار گھبرا کر زندگی کے رستے سے دور دور ہو جائے! جیسے کوئی دیوانہ وحشتوں کے گھیرے میں شہر کے گلی کوچے چھوڑ کر کسی بن میں دوریوں سے ٹکرا کر چور چور ہو جائے!! (فرحت عباس شاہ)

تُم ‏نے ‏سُن ‏لیا ‏ہو ‏گا ‏از ‏فرحت ‏عباس ‏شاہ

تُم نے سُن لیا ہو گا چاہتوں کے موسم میں زخم جو بھی لگ جائے عمر بھر نہیں سِلتا! تُم نے سُن لیا ہو گا شہر کی ہواؤں سے وہ جو ایک دیوانہ آتے جاتے راہی کو راستوں میں ملتا تھا اب کہیں نہیں مِلتا!! (فرحت عباس شاہ)

‎وہ ‏کب ‏کے ‏آئے ‏بھی ‏اور ‏گئے ‏ہیں ‏از ‏جگر ‏مراد ‏آبادی

وہ کب کے آئے بھی اور گئے ہیں، نظر میں اب تک سما رہے ہیں! یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آ رہے ہیں، وہ جا رہے ہیں! کدھر ہے تیرا خیال اے دل؟ یہ وہم کیا کیا سما رہے ہیں! نظر اٹھا کر تو دیکھ ظالم، کھڑے وہ کیا مسکرا رہے ہیں! وہی قیامت ہے قدِ بالا، وہی ہے صورت، وہی سراپا! لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں! خرام رنگیں، نظام رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں قدم قدم پر، روش روش پر، نئے نئے گُل کِھلا رہے ہیں! وہی لطافت، وہی تبسم، وہی نزاکت، وہی ترنم! مَیں نقشِ حرماں بنا ہوا تھا، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں! شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں! تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں! یہ موجِ دریا، یہ ریگِ صحرا، یہ غنچہ و گُل، یہ ماہ و انجم ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں! خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شورِ تہنیت ہے یہ وقت وہ ہے جگر کے دل کو وہ اپنے دل سے مِلا رہے ہیں!! (جگر مراد آبادی)

مرے ‏چارہ ‏گر ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

مرے چارہ گر یہ جو زخم زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سُو مرے بےخبر ، مرے بےنشاں، میں تھا کس نگر، تُو رہا کہاں کہ زماں، مکاں کی یہ وسعتیں تجھے دیکھنے کو ترس گئیں وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں تو مرے سفر کا شریک ہے، نہیں ہم سفر، نہیں ہم سفر! مرے چارہ گر، ممرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر! وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ، کئی موسموں میں بدل گیا اسے ناپتے، اسے کاٹتے، مرا سارا وقت نکل گیا نہیں جس پہ کوئی نشانِ پا، مرے سامنے ہے وہ رہ گزر مرے چارہ گر، مرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر! یہ جو زخم زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے مرے چار سُو یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ، سبھی راستوں میں رُکا ہوا نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا، اسے حکم دے، یہ کرے سفر مرے چارہ گر، مرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر!! (امجد اسلام امجد)

غزل

چشمِ بےخواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے  کیسا پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے  جسم میں کُھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے  مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے  کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ  ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے  لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک دور سے دیکھو تو یہ شہر بھنور لگتا ہے وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے اب جو چاہیں بھی تو اس طرح نہیں مل سکتے پیڑ اکھڑے تو کہاں بارِ دگر لگتا ہے ذہن کی جھیل سے یادوں کی دھنک پھوٹتی ہے  ایک میلہ ہے جو ہر شام اِدھر لگتا ہے  کوئی شوریدہ نفس جسم کے اندر یے سعود  دل دھڑکتا ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے  (سعود عثمانی)

عشق ‏یاد ‏رکھتا ‏ہے ‏از ‏سیماب ‏ظفر

چھپا رکھو تم اپنے سچ انہیں مت کھولنا مجھ پر یہ پکڑو رنگ اور ان رات دن کو خوشنما کر دو! اٹھاؤ ایک چہرہ اور اس کو ہجر پہنا دو یہ دُوجے نام کا لاشہ اٹھاؤ اور اس پر اشک لکھ ڈالو وہ سب سے آخری کونے میں لٹکی یاد کو تھامو اور اس بے رُوح بت سے اک نویلی نظم بُن لینا- - - سبھی بےجان جسموں سے انوکھے لفظ چُن لینا - -  مبارک ہو! کہ اب بیتے ہوئے سب کم نما، بےآرزو، بدبخت لمحوں کو تمہارے خامۂ بےمثل کی تحریرِ خوش رُو "عشق" لکھتی ہے!  تم اپنے سچ چھپا رکھنا بچا رکھنا سجا رکھنا.. مگر اے عشق کے ہِجّوں سے ناآگاہ کاتب! عشق اپنے مجرموں کی ذات کے ہِجّے ہمیشہ یاد رکھتا ہے!! (سیماب ظفر)

بہت گہری اداسی ہے ‏از ‏ایوب ‏خاور

بہت گہری اُداسی ہے بہت کچھ کھو گیا ہے بہت گہری اُداسی ہے اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو سینے سے معدے تک بہت آہستگی کے ساتھ اپنی تہہ کے اندر گونجتا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دل کی سطحِ سرخ پر اس بیکرانی سے ٹپکتا ہے کہ میرے ہاتھ کی پوروں میں اور پاﺅں کے تلووں میں اور آنکھوں اور پلکوں، پلکوں کے پیچھے شکستہ ضبط کے ڈوروں میں جکڑی پتلیوں میں عالمِ سکرات بھر دیتا ہے، ہونٹوں کے سرابوں اور رَگوں میں رکتے چلتے خون کے ذرّوں چٹختی ہڈیوں کو دھول کرتا ہے شجر زادی! شجر زادی! تری بانہوں کی شاخوں اورترے ہونٹوں کے ہلکے قرمزی پتّوں کے شبنم ساز سائے میں ٹھہرنے کی تمنّا کو یہ کس رُخ کی تمازت کھا گئی ہے، اے شجر زادی میں کس رُخ سے تجھے دیکھوں اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو....ٹھہرو.... مجھے....کچھ ٹھیک سے....کیفیتِ ِ....دل کو بیاں ....کر....نا.... نہیں آیا ذرا.... میں....سانس....لے لوں! یہ زباں....لکڑی کا ....ٹکڑ....ا.... سا.... مرے جبڑے کی مٹھی میں چٹخنے لگ گیا ہے کیا.... مجھے دو گھونٹ آنسو مل....سکیں ....گے میں کچھ کہنے کی حالت میں تو آ لوں.... ٹھیک ...