ایک کہانی از امجد اسلام امجد
ایک کہانی میں تنہا تھا، سرد ہوا تھی رات کے پچھلے پہر کی کالی خاموشی تھی پیڑوں کے چہروں پہ اک بےنام تحیر تھا جیسے وہ میرے پیچھے کوئی دشمن دیکھ رہے ہوں دور دور تک چاروں جانب ویرانی کا جال تنا تھا میں اس منظر کی ہیبت سے خائف تھا اور اپنے دل میں سوچ رہا تھا "آگے میرے دوست کھڑے ہیں، جنگل کے اس پار نہایت بےچینی سے میرا رستہ دیکھ رہے ہیں، ان کی رس میں ڈوبی باتیں، چاہت سے معمور نگاہیں پھیلی باہیں میرے غم کا مرہم ہوں گی سفر صعوبت سن کر ان کی آنکھیں شبنم شبنم ہوں گی جب میں ان کو وہ سب چیزیں جو میں جنوں اور دیووں سے لڑ کر لایا ہوں، دوں گا تو ان کے چہرے کھل اٹھیں گے وہ پوچھیں گے! ......" ابھی میں دل میں ان کے سوالوں کے جملے ہی سوچ رہا تھا یکدم مجھ پر جانے کہاں سے کچھ سائے سے ٹوٹ پڑے، میرے سینے اور کندھوں میں ان کے ٹھنڈے خنجر اترے، خون بہا تو میں نے بچنے کی کوشش میں اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے لیکن میرے ہاتھ نہیں تھے! میری آنکھوں کے آگے سے ساری چیزیں ڈوب رہی تھیں، سائے مجھ پر جھپٹ جھپٹ کر وہ سب چیزیں لوٹ رہے تھے جن کی خاطر میرے ساتھی جنگل کے اس پار کھڑے تھے! یکدم اک بجلی سی چمکی میں نے ان سایو...