Posts

Showing posts from May, 2021

ایک ‏کہانی ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

ایک کہانی میں تنہا تھا، سرد ہوا تھی رات کے پچھلے پہر کی کالی خاموشی تھی پیڑوں کے چہروں پہ اک بےنام تحیر تھا جیسے وہ میرے پیچھے کوئی دشمن دیکھ رہے ہوں دور دور تک چاروں جانب ویرانی کا جال تنا تھا میں اس منظر کی ہیبت سے خائف تھا اور اپنے دل میں سوچ رہا تھا "آگے میرے دوست کھڑے ہیں، جنگل کے اس پار نہایت بےچینی سے میرا رستہ دیکھ رہے ہیں، ان کی رس میں ڈوبی باتیں، چاہت سے معمور نگاہیں پھیلی باہیں میرے غم کا مرہم ہوں گی سفر صعوبت سن کر ان کی آنکھیں شبنم شبنم ہوں گی جب میں ان کو وہ سب چیزیں جو میں جنوں اور دیووں سے لڑ کر لایا ہوں، دوں گا تو ان کے چہرے کھل اٹھیں گے وہ پوچھیں گے! ......" ابھی میں دل میں ان کے سوالوں کے جملے ہی سوچ رہا تھا یکدم مجھ پر جانے کہاں سے کچھ سائے سے ٹوٹ پڑے، میرے سینے اور کندھوں میں ان کے ٹھنڈے خنجر اترے، خون بہا تو میں نے بچنے کی کوشش میں اپنے دونوں ہاتھ بڑھائے لیکن میرے ہاتھ نہیں تھے! میری آنکھوں کے آگے سے ساری چیزیں ڈوب رہی تھیں، سائے مجھ پر جھپٹ جھپٹ کر وہ سب چیزیں لوٹ رہے تھے جن کی خاطر میرے ساتھی جنگل کے اس پار کھڑے تھے! یکدم اک بجلی سی چمکی میں نے ان سایو...

سوال ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

سوال آسمانوں سے کوئی بشارت نہیں اور زمیں گنگ ہے وقت اک بیوہ ماں کی طرح سوگ میں مبتلا ہے __ ہوا سسکیاں لے کے چلتی ہے کالی ہوا خواہشوں کے کنول درد کی جھیل سے سر اٹھاتے نہیں خواب تک بند آنکھوں میں آتے نہیں.. ساری سچی کتابوں میں یہ درج ہے ایسے حالات میں آسماں سے نبی یا تباہی زمیں کی طرف بھیجے جاتے رہے ہیں مگر ان کتابوں میں یہ بھی لکھا ہے نبی اب نہیں آئیں گے!! امجد اسلام امجد

آورد ‏از ‏عبدالمجید ‏امجد

آورد دھیان کا جب بھی کوئی پٹ کھولا "میری بات نہ کہہ"، دل بولا دل کی بات کہی بھی نہ جائے ضبط کی ٹیس سہی بھی نہ جائے نظم میں کس کا ذکر کروں اب فکر میں ہوں، کیا فکر کروں اب ایک عجب الجھن میں گھرا ہوں کیا سوچوں، یہ سوچ رہا ہوں!! عبدالمجید امجد

Like as the damask rose you see

Like as the damask rose you see, Or like the flower on the tree, Or like the dainty flower in May, Or like the morning of the day, Or like the sun, or like the shade, Or like the gourd that Jonas had; E'en such is man, whose thread is spun, Drawn out and cut, and so is done. If none can scape Death's dreadful dart, If rich and poor his beck obey, If wise, if strong, if all do smart, Then I to scape shall have no way. O grant me grace, O God, that I, My life may mend since I must die..

Silver Birch

Life is always a polarity. If there were no darkness, there would be no light. If there were no trouble, there could never be any peace. If the sun always shone, you would not appreciate it. You have to learn sometimes through conditions that seem a nuisance. One day you will look back and say, "We learned our best lessons not when the sun was shining, but when the storm was at its greatest, when the thunder roared, the lightning flashed, the clouds obscured the sun and all seemed dark and hopeless." It is only when the soul is in adversity that some of its greatest possibilities can be realized. ~ Silver Birch

کوئی ‏تو ‏سیکھے ‏از ‏نیلمہ ‏ناہید ‏دُرّانی

اُداس لوگوں سے پیار کرنا، کوئی تو سیکھے سفید لمحوں میں رنگ بھرنا، کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے خزاں میں پتے اُگانے والا گلُوں کی خوشبو کو قید کرنا، کوئی تو سیکھے کوئی دِکھائے محبتوں کے سراب مجھ کو میری نگاہوں سے بات کرنا، کوئی تو سیکھے کوئی تو آئے نئی رُتوں کا پیام بن کر اندھیری راتوں میں چاند بننا، کوئی تو سیکھے کوئی پیمبر، کوئی امامِ زماں ہی آئے اسیر ذہنوں میں سوچ بھرنا، کوئی تو سیکھے (نیلمہ ناهيد درانی)

سنتے ‏تھے

سمجھ کے اپنے بڑوں کی نِشانی ۔۔۔ سٌنتے تھے جدید لوگ بھی غزلیں پٌرانی سٌنتے تھے کِسی کو ہم سے زیادہ خبر ہماری تھی سو اپنا حال ہم اٌس کی زبانی سٌنتے تھے کچھ اِس لئے بھی غنیمت تھی گھر میں ٹین کی چھت ہم اِس وسیلے سے بارش کا پانی سٌنتے تھے ہماری آنکھ ۔۔۔۔۔ سماعت کا کام دیتی تھی ہم اٌس کو دیکھتے رہتے تھے ۔۔۔۔یعنی سٌنتے تھے محاذ کھولا ہوا تھا کِسی نے میرے خِلاف اور اٌس کی بات مِرے یار جانی سٌنتے تھے الاؤ میں ہی کہیں جل بٌجھا وہ وقت ۔۔۔۔ کہ جب کوئی سٌناتا تھا ۔۔۔۔ اور ہم کہانی سٌنتے تھے

دل ‏بنا ‏دیا

ہندوستان میں ایک جگہ مشاعرہ تھا۔ ردیف دیا گیا: "دل بنا دیا" اب شعراء کو اس پر شعر کہنا تھے۔ سب سے پہلے حیدر دہلوی نے اس ردیف کو یوں استعمال کیا: اک دل پہ ختم قدرتِ تخلیق ہوگئی سب کچھ بنا دیا جو مِرا دل بنا دیا اس شعر پر ایسا شور مچا کہ بس ہوگئی ، لوگوں نے سوچا کہ اس سے بہتر کون گرہ لگا سکے گا؟ لیکن جگر مراد آبادی نے ایک گرہ ایسی لگائی کہ سب کے ذہن سے حیدر دہلوی کا شعر محو ہوگیا۔ انہوں نے کہا: بے تابیاں سمیٹ کر سارے جہان کی جب کچھ نہ بَن سکا تو مِرا دل بنا دیا۔

اک ‏نظم ‏ترے ‏دروازے ‏پر

اک نظم ترے دروازے پر سانپ سے میں نے پوچھا "ارے کم نظر! بین جوگی نے پوری بجائی نہ تھی اپنے بل سے تڑپتے مچلتے ہوئے، رقص کرتے ہوئے کس لیے قید تو خود بخود ہو گیا؟ اس پٹاری کے زندان میں سو گیا!" سانپ کہنے لگا، "ساری دنیا میں جتنے بھی دروازے ہیں سب کی اک آن ہے سب کی اک شان ہے سب کا اک ظرف ہے سب کی اک بات ہے جتنا دروازہ ہو، اتنی خیرات ہے ایک میں ہوں کہ اتنی جگہ بھی نہیں لیٹ کر سو سکوں مطمئن ہو سکوں میرے دن رات کیا؟ میری اوقات کیا؟ ایک دن اک سپیرا ادھر آ گیا آس لے کر مرے اجڑے گھر آ گیا اپنے گھر کی مجھے لاج رکھنی پڑی لذت_ قید بھی چاہے چکھنی پڑی." اے مرے دل ربا! اے مرے بے وفا! سانپ کی بات سن کر میں چکرا گیا!! تیرا دروازہ پھر مجھ کو یاد آ گیا!!

محبت لفظ تھا میرا ‏از ‏عرش ‏صدیقی

مَحَبَّت لفظ تھا میرا مَیں اُس شہرِ خرابی میں فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں اُسے گلیوں میں، سڑکوں پر گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈتا تنہا کہ وہ مل جائے تو تُحفہ اُسے دُوں اپنی چاہت کا تمنا میری بر آئی، کہ اِک دن ایک دروازہ کُھلا اور مَیں نے دیکھا وہ شناسا چاند سا چہرہ جو شادابی میں گُلشن تھا مَیں اک شانِ گدایانہ لیے اُس کی طرف لپکا تو اس نے چشمِ بےپروا کے ہلکے سے اشارے سے مجھے روکا اور اپنی زلف کو ماتھے پہ لہراتے ہوئے پوچھا: "کہو اے اجنبی سائل، گدائے بے سر و ساماں، تمہیں کیا چاہیئے ہم سے؟" مَیں کہنا چاہتا تھا "عُمر گزری جس کی چاہت میں وُہی جب مِل گیا تو اور اب کیا چاہیئے مُجھ کو!؟" مگر تقریر کی قُوّت نہ تھی مُجھ میں! فقط اِک لفظ نِکلا تھا لبوں سے کانپتا، ڈرتا جِسے اُمید کم تھی اُس کے دِل میں بار پانے کی!! "مَحَبَّت" لفظ تھا میرا مگر اُس نے سُنا "روٹی"!!! (عرش صدیقی)

محبت مر ‏نہیں ‏سکتی ‏از ‏عبدالسمیع ‏سائر

محبت مر نہیں سکتی ستارے ٹوٹ بھی جائیں سمندر سوکھ بھی جائیں زمیں کی کوکھ کے سب استعارے روٹھ بھی جائیں صبا، گُل اور بہاروں سے کنارا کر نہیں سکتی محبت مر نہیں سکتی!! زمانہ بیت جائے گا زمانے بیت جاتے ہیں فنا کی وادیوں میں روز میرے گیت جاتے ہیں دلوں کی کھیتیوں کو زہر دے کر بارہا ظالم کے لشکر جیت جاتے ہیں مگر نفرت کی تند و تیز ظالم آندھیوں میں بھی فضا میں ایک ننھی پریت کوئل ڈر نہیں سکتی محبت مر نہیں سکتی!! (عبدالسمیع سائر)

Linktree

https://linktr.ee/MuhammadZiaSheikh

ماں ‏از ‏مسعود ‏احمد

ماں دودھ اور شہد میں گوندھا پہلے عرشِ بریں کی مٹی کو اس میں اپنا عکس ملایا نور کی بارش میں نہلایا ممتا کا پیکر پہنایا پھر ایسا شاہکار بنایا جو دھرتی پر ماں کہلایا قدرت کی فنکاری ماں ہے پھولوں کی پھلواری ماں ہے اس سا کوئ اور کہاں ہے؟ ماں کا رشتہ سب سے افضل خالق نے تخلیق کیا ہے پیار محبت مہر وفا اخلاص سے مالا مال کیا ہے اپنے بعد خدا نے اونچا ممتا کا اقبال کیا ہے چار کتابوں سے بھی پہلے  جیسے جسم میں جاں اتری ہے اس دھرتی پے ماں اتری ہے جس کی کوکھ سے جنم لیا ہے ہر ایک پیر پیمبر نے  سادھو سنت فقیر اور جوگی بے راگی بنجارے روگی صوفی قطب ابدال ولی سب ممتا کے مرحونِ منت ماں جس کے قدموں میں جنت ماں جس کی انکھوں میں ٹھنڈک سر تا پیر محبت ہے یہ شفقت ہے یہ چاہت ہے یہ رحمت برکت راحت ہے یہ عزت ہے یہ حرمت ہے یہ عجز نیاز کی صورت ہے یہ قدرت کا بہروپ ہے ممتا رب کا دوسرا روپ ہے ممتا دھوپ کڑی میں چھاؤں جیسی وسعت میں دریاؤں جیسی کون سی ہستی ماؤں جیسی؟ جسم سے جیسے جاں کا رشتہ آئت سے قراں کا رشتہ وہ بچے سے ماں کا رشتہ ماں چاہے انسانوں کی ہو جنگل کے حیوانوں کی ہو چاہے کسی پرندے کی ہو یا پھر کسی درندے ک...

ایک ‏کمرۂ ‏امتحان ‏میں ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

ایک کمرۂ امتحان میں بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں پرچے کو بےخیال ہاتھوں سے ان بُنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں یا سوال نامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں ہر طرف کَن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں دوسروں کے پرچوں کو رہنما سمجھتے ہیں شاید اس طرح کوئی راستہ ہی مل جائے بے نشاں جوابوں کا کچھ پتا ہی مل جائے مجھ کو دیکھتے ہیں تو یوں جواب کاپی پر حاشیے لگاتے ہیں دائرے بناتے ہیں جیسے ان کو پرچے کے سب جواب آتے ہیں اس طرح کے منظر میں امتحان گاہوں میں دیکھتا ہی رہتا تھا نقل کرنے والوں کے نت نئے طریقوں سے آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا! کس طرف سے جانے یہ آج دل کے آنگن میں اک خیال آیا ہے سینکڑوں سوالوں سا اک سوال لایا ہے وقت کی عدالت میں زندگی کی صورت میں یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوال نامہ ہے کس نے یہ بنایا ہے کس لئے بنایا ہے کچھ سمجھ میں آیا ہے؟ زندگی کے پرچے کے سب سوال لازم ہیں، سب سوال مشکل ہیں! بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے ان بُنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں حاشیے لگاتا ہوں دائرے بناتا ہوں یا سوال نامے کو دیکھتا ہی جاتا ہوں (امجد اسلام امجد)

مَیں فقیر ہُوں

نہ میں تاج ور، نہ وزیر ہوں، میں فقیر ہوں! نہ فقیہِ شہر، نہ پیر ہوں، میں فقیر ہوں! تو ضرورتوں کا اسیر ہے، تو امیر ہے میں محبتوں کا اسیر ہوں، میں فقیر ہوں! رہِ مستقیم پہ مستقل ہوں میں گام زن میں تو ایک سیدھی لکیر ہوں، میں فقیر ہوں! میں ہوں اونچ نیچ سے، ذات پات سے ماورا نہ صغیر ہوں، نہ کبیر ہوں، میں فقیر ہوں! میں جو شاعری میں گریز پا زن و زر سے ہوں نہ ولی و داغ، نہ میر ہوں، میں فقیر ہوں! میں ہوں کم سخن، مرے اشک ہیں مرے مرثیے نہ انیس ہوں، نہ دبیر ہوں، میں فقیر ہوں! مجھے مت بتا ہمہ اُوست رستۂ دار ہے! میں علیم ہوں، میں خبیر ہوں، میں فقیر ہوں! مجھے جاہ و حشمت و اقتدار نہ پیش کر تجھے کہہ چکا ہوں، فقیر ہوں، میں فقیر ہوں!!