Posts

Showing posts from October, 2020

لادینیت کے ‏اثرات ‏مشرق ‏میں ‏از ‏محمد ‏فہد ‏حارث

لادینیت کے اثرات مشرق میں ========== مغرب نے جب کلیسا سے بغاوت کی تو اس وقت پروٹیسٹنٹ فرقہ کو سب سے زیادہ عروج نصیب ہوا۔ پروٹیسٹنٹ فرقہ کا اصل مقصد تو اصلاحِ مذہب تھا لیکن اصلاحِ مذہب کے پیچھے خفیہ محرک مذہب کو عقل سے نتھی کرنے کی سعی تھی جس کا بنیادی نکتہ یہ قرار پایا کہ خدا خود بھی قوانینِ فطرت کی پابندی پر مجبور ہے اور وہ کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دے سکتا جس سے فطرت کے اصولوں کی نفی آتی ہو۔ یہ سوچ مسلسل ارتقائی مراحل میں رہی یہاں تک کہ موجودہ عیسائیت کا ظہور ہوا۔ وہ عیسائیت جو اوپری سطح سے دیکھنے پر لادینیت محسوس ہوتی ہے لیکن اپنے اندر کہیں عیسائیت کے تخم لازم رکھتی ہے۔ وہی عیسائیت جس نے آج تمام یورپی ممالک کو اپنے مذہبی ، سماجی اور معاشرتی مفادات کے لئے اکٹھا کررکھا ہے۔ جس کے مذہبی تشدد کی کارستانیاں کبھی جرمنی میں سننے کو ملتی ہیں تو کبھی برطانیہ میں اور کبھی فرانس کے کسی اخبار میں توہین آمیز خاکوں کی صورت میں۔ قصہ مختصر مغرب جتنا عقل پرست کیوں نہ ہوجائے، اوپر سے دیکھنے میں جتنا لادین کیوں نہ محسو س ہو، اس کو ہمیشہ اپنے لئے ایک مذہب اور تثلیث کی ضرورت رہی۔ ایک ایسی ع...

بہت گہری اداسی ہے از ‏ایوب ‏خاور

بہت گہری اُداسی ہے بہت کچھ کھو گیا ہے بہت گہری اُداسی ہے اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو سینے سے معدے تک بہت آہستگی کے ساتھ اپنی تہہ کے اندر گونجتا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دل کی سطحِ سرخ پر اس بیکرانی سے ٹپکتا ہے کہ میرے ہاتھ کی پوروں میں اور پاﺅں کے تلووں میں اور آنکھوں اور پلکوں، پلکوں کے پیچھے شکستہ ضبط کے ڈوروں میں جکڑی پتلیوں میں عالمِ سکرات بھر دیتا ہے، ہونٹوں کے سرابوں اور رَگوں میں رکتے چلتے خون کے ذرّوں چٹختی ہڈیوں کو دھول کرتا ہے شجر زادی! شجر زادی! تری بانہوں کی شاخوں اورترے ہونٹوں کے ہلکے قرمزی پتّوں کے شبنم ساز سائے میں ٹھہرنے کی تمنّا کو یہ کس رُخ کی تمازت کھا گئی ہے، اے شجر زادی میں کس رُخ سے تجھے دیکھوں اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو....ٹھہرو.... مجھے....کچھ ٹھیک سے....کیفیتِ ِ....دل کو بیاں ....کر....نا.... نہیں آیا ذرا.... میں....سانس....لے لوں! یہ زباں....لکڑی کا ....ٹکڑ....ا.... سا.... مرے جبڑے کی مٹھی میں چٹخنے لگ گیا ہے کیا.... مجھے دو گھونٹ آنسو مل....سکیں ....گے میں کچھ کہنے کی حالت میں تو آ لوں.... ٹھیک ...

APOCALYPSE ‎از ‏فیصل ‏ہاشمی

APOCALYPSE نظر کی آخری سرحد پہ کوئی نقش ہے، جس میں بھنور کی زد پہ کشتی کی مقدر آزما کوشش قیامت خیز لمحوں میں صدا کے مُضمحِل پیکر برہنہ رقص میں مشغول ہیں موہُوم سالوں سے اور اِک سُنسان صحرا سے جرس کی گونج آئی ہے روانہ ہو رہا ہے کارواں گمنام رستوں پر بدلتی صورتِ حالات کی نوحہ سرائی سے مُجھے محسوس ہوتا ہے کہ اب تم مِل نہیں سکتے!! (فیصل ہاشمی)

ہجر ‏کی ‏مسافت ‏میں‏ ‏از فرحت ‏عباس ‏شاہ

ہجر کی مسافت میں ہجر کی مسافت میں دل تمہارے بن جاناں بار بار گھبرا کر زندگی کے رستے سے دور دور ہو جائے! جیسے کوئی دیوانہ وحشتوں کے گھیرے میں شہر کے گلی کوچے چھوڑ کر کسی بن میں دوریوں سے ٹکرا کر چور چور ہو جائے!! (فرحت عباس شاہ)

تُم ‏نے ‏سُن ‏لیا ‏ہو ‏گا ‏از ‏فرحت ‏عباس ‏شاہ

تُم نے سُن لیا ہو گا چاہتوں کے موسم میں زخم جو بھی لگ جائے عمر بھر نہیں سِلتا! تُم نے سُن لیا ہو گا شہر کی ہواؤں سے وہ جو ایک دیوانہ آتے جاتے راہی کو راستوں میں ملتا تھا اب کہیں نہیں مِلتا!! (فرحت عباس شاہ)

‎وہ ‏کب ‏کے ‏آئے ‏بھی ‏اور ‏گئے ‏ہیں ‏از ‏جگر ‏مراد ‏آبادی

وہ کب کے آئے بھی اور گئے ہیں، نظر میں اب تک سما رہے ہیں! یہ چل رہے ہیں، وہ پھر رہے ہیں، یہ آ رہے ہیں، وہ جا رہے ہیں! کدھر ہے تیرا خیال اے دل؟ یہ وہم کیا کیا سما رہے ہیں! نظر اٹھا کر تو دیکھ ظالم، کھڑے وہ کیا مسکرا رہے ہیں! وہی قیامت ہے قدِ بالا، وہی ہے صورت، وہی سراپا! لبوں کو جنبش، نگہ کو لرزش، کھڑے ہیں اور مسکرا رہے ہیں! خرام رنگیں، نظام رنگیں، کلام رنگیں، پیام رنگیں قدم قدم پر، روش روش پر، نئے نئے گُل کِھلا رہے ہیں! وہی لطافت، وہی تبسم، وہی نزاکت، وہی ترنم! مَیں نقشِ حرماں بنا ہوا تھا، وہ نقشِ حیرت بنا رہے ہیں! شباب رنگیں، جمال رنگیں، وہ سر سے پا تک تمام رنگیں! تمام رنگیں بنے ہوئے ہیں، تمام رنگیں بنا رہے ہیں! یہ موجِ دریا، یہ ریگِ صحرا، یہ غنچہ و گُل، یہ ماہ و انجم ذرا جو وہ مسکرا دیئے ہیں، یہ سب کے سب مسکرا رہے ہیں! خوشی سے لبریز شش جہت ہے، زبان پر شورِ تہنیت ہے یہ وقت وہ ہے جگر کے دل کو وہ اپنے دل سے مِلا رہے ہیں!! (جگر مراد آبادی)

مرے ‏چارہ ‏گر ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

مرے چارہ گر یہ جو زخم زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے میرے چار سُو مرے بےخبر ، مرے بےنشاں، میں تھا کس نگر، تُو رہا کہاں کہ زماں، مکاں کی یہ وسعتیں تجھے دیکھنے کو ترس گئیں وہ مرے نصیب کی بارشیں کسی اور چھت پہ برس گئیں تو مرے سفر کا شریک ہے، نہیں ہم سفر، نہیں ہم سفر! مرے چارہ گر، ممرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر! وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ، کئی موسموں میں بدل گیا اسے ناپتے، اسے کاٹتے، مرا سارا وقت نکل گیا نہیں جس پہ کوئی نشانِ پا، مرے سامنے ہے وہ رہ گزر مرے چارہ گر، مرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر! یہ جو زخم زخم سے خواب ہیں، یہ جو رات ہے مرے چار سُو یہ جو بےبسی کا ہے قافلہ، سبھی راستوں میں رُکا ہوا نہیں کچھ بھی تجھ سے چھپا ہوا، اسے حکم دے، یہ کرے سفر مرے چارہ گر، مرے چارہ گر، مرے درد کی تجھے کیا خبر!! (امجد اسلام امجد)

غزل

چشمِ بےخواب پہ خوابوں کا اثر لگتا ہے  کیسا پت جھڑ ہے کہ شاخوں پہ ثمر لگتا ہے نیند اب چشمِ گراں بار کی دہلیز پہ ہے  جسم میں کُھلتا ہوا خواب کا در لگتا ہے  مہلتِ عمر بس اتنی تھی کہ گزرا ہوا وقت اک ڈھلکتے ہوئے آنسو کا سفر لگتا ہے  کہیں کچھ اور بھی ہو جاؤں نہ ریزہ ریزہ  ایسا ٹوٹا ہوں کہ جڑتے ہوئے ڈر لگتا ہے  لوگ چکرائے ہوئے پھرتے ہیں گھر سے گھر تک دور سے دیکھو تو یہ شہر بھنور لگتا ہے وقت نظریں بھی پلٹ جاتا ہے اقدار کے ساتھ دن بدلتے ہیں تو ہر عیب ہنر لگتا ہے اب جو چاہیں بھی تو اس طرح نہیں مل سکتے پیڑ اکھڑے تو کہاں بارِ دگر لگتا ہے ذہن کی جھیل سے یادوں کی دھنک پھوٹتی ہے  ایک میلہ ہے جو ہر شام اِدھر لگتا ہے  کوئی شوریدہ نفس جسم کے اندر یے سعود  دل دھڑکتا ہے کہ دیوار سے سر لگتا ہے  (سعود عثمانی)

عشق ‏یاد ‏رکھتا ‏ہے ‏از ‏سیماب ‏ظفر

چھپا رکھو تم اپنے سچ انہیں مت کھولنا مجھ پر یہ پکڑو رنگ اور ان رات دن کو خوشنما کر دو! اٹھاؤ ایک چہرہ اور اس کو ہجر پہنا دو یہ دُوجے نام کا لاشہ اٹھاؤ اور اس پر اشک لکھ ڈالو وہ سب سے آخری کونے میں لٹکی یاد کو تھامو اور اس بے رُوح بت سے اک نویلی نظم بُن لینا- - - سبھی بےجان جسموں سے انوکھے لفظ چُن لینا - -  مبارک ہو! کہ اب بیتے ہوئے سب کم نما، بےآرزو، بدبخت لمحوں کو تمہارے خامۂ بےمثل کی تحریرِ خوش رُو "عشق" لکھتی ہے!  تم اپنے سچ چھپا رکھنا بچا رکھنا سجا رکھنا.. مگر اے عشق کے ہِجّوں سے ناآگاہ کاتب! عشق اپنے مجرموں کی ذات کے ہِجّے ہمیشہ یاد رکھتا ہے!! (سیماب ظفر)

بہت گہری اداسی ہے ‏از ‏ایوب ‏خاور

بہت گہری اُداسی ہے بہت کچھ کھو گیا ہے بہت گہری اُداسی ہے اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو سینے سے معدے تک بہت آہستگی کے ساتھ اپنی تہہ کے اندر گونجتا ہے اور قطرہ قطرہ کر کے دل کی سطحِ سرخ پر اس بیکرانی سے ٹپکتا ہے کہ میرے ہاتھ کی پوروں میں اور پاﺅں کے تلووں میں اور آنکھوں اور پلکوں، پلکوں کے پیچھے شکستہ ضبط کے ڈوروں میں جکڑی پتلیوں میں عالمِ سکرات بھر دیتا ہے، ہونٹوں کے سرابوں اور رَگوں میں رکتے چلتے خون کے ذرّوں چٹختی ہڈیوں کو دھول کرتا ہے شجر زادی! شجر زادی! تری بانہوں کی شاخوں اورترے ہونٹوں کے ہلکے قرمزی پتّوں کے شبنم ساز سائے میں ٹھہرنے کی تمنّا کو یہ کس رُخ کی تمازت کھا گئی ہے، اے شجر زادی میں کس رُخ سے تجھے دیکھوں اداسی ہے بہت گہری اداسی ہے اداسی کیا کوئی سیّال سنّاٹا ہے جو....ٹھہرو.... مجھے....کچھ ٹھیک سے....کیفیتِ ِ....دل کو بیاں ....کر....نا.... نہیں آیا ذرا.... میں....سانس....لے لوں! یہ زباں....لکڑی کا ....ٹکڑ....ا.... سا.... مرے جبڑے کی مٹھی میں چٹخنے لگ گیا ہے کیا.... مجھے دو گھونٹ آنسو مل....سکیں ....گے میں کچھ کہنے کی حالت میں تو آ لوں.... ٹھیک ...

مجھے انبیاء کرام علیہم السلام کا کردار چاہیے

 آپ کو یہ تو بتایا گیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام بہت خوبصورت اور حسین و جمیل تھے، مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ انہوں نے اپنے ملک کو کیا "معاشی پروگرام" دیا تھا کہ 7 سال کے قحط میں کوئی انسان بھوک سے نہیں مرنے پایا۔  سب صرف یہ تو بتاتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کی بادشاہت اتنی دبدبے والی تھی کہ جنات بھی ان کے ماتحت تھے، مگر کوئی نہیں بتاتا کہ وہ بے پناہ "سیاسی بصیرت" رکھنے والے بادشاہ تھے، [ایک مثال] اپنے ملک فلسطین [ انڈسٹریل/ صنعتی اکانومی ] اور ملکہ بلقیس کے ملک یمن [ ایگریکلچرل / زرعی اکانومی ] کے درمیان دو طرفہ معاہدات [Bileteral Agreements] کے نتیجے میں خطے کو جس طرح خوشحالی دی آج کی جدید دنیا بھی اس کی مثال نہیں دیتی۔ مجھے سب واعظ صرف اتنا سا تو بتاتے ہیں کہ حضرت محمدﷺ کی زلفیں "والیل" اور رُوئے مبارک "والضحی" کا تھا مگر اس سے آگے کبھی کوئی یہ نہیں بتاتا کہ جس معاشرے میں لوگ غربت سے تنگ آ کر ہمہ وقت لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت کرتے رہتے ہوں، وہاں حضرت محمد ﷺ کس طرح "ہمہ گیر تبدیلی" لاتے ہیں کہ وہ وقت بھی آتا ہے کہ زکوٰۃ دینے والے...

افتخار ‏حسین ‏عارف

عذابِ وحشتِ جاں کا صِلہ نہ مانگے کوئی نئے سفر کے لیے راستہ نہ مانگے کوئی بلند ہاتھوں میں زنجیر ڈال دیتے ہیں عجیب رسم چلی ہے، دُعا نہ مانگے کوئی تمام شہر مُکرّم، بس ایک مُجرِم میں سو میرے بعد مِرا خُوں بہا نہ مانگے کوئی کوئی تو شہرِ تذبذُب کے ساکِنوں سے کہے نہ ہو یقین تو پھر مُعجزہ نہ مانگے کوئی عذابِ گردِ خزاں بھی نہ ہو، بہار بھی آئے اِس احتیاط سے اجرِ وفا نہ مانگے کوئی (افتخار عارف)

‎احمد ‏فراز

مثالِ دستِ زُلیخا تپاک چاہتا ہے یہ دل بھی دامنِ یُوسُف ہے، چاک چاہتا ہے دُعائیں دو مِرے قاتِل کو تُم، کہ شہر کا شہر اُسی کے ہاتھ سے ہونا ہلاک چاہتا ہے فسانہ گو بھی کرے کیا، کہ ہر کوئی سرِ بزم مآلِ قصۂ دِل دردناک چاہتا ہے اِدھر اُدھر سے کئی آ رہی ہیں آوازیں اور اُس کا دھیان بہت اِنہماک چاہتا ہے ذرا سی گردِ ہوس دِل پہ لازمی ہے فراز وہ عِشق کیا ہے جو دامن کو پاک چاہتا ہے! (احمد فراز)

دو ‏شعر

مفلسِ شہر کو دھن وان سے ڈر لگتا ہے پر نہ دھن وان کو رحمان سے ڈر لگتا ہے اب کہاں ایثار و محبت وہ مدینے والی! اب تو مسلم کو مسلمان سے ڈر لگتا ہے!!

The Rights of Allah vs. The Rights of the Creation

The Rights of Allah vs. The Rights of the Creation Abu Hurayrah reported that the Prophet ﷺ was told about a lady who prayed every night, and fasted regularly, and was very generous, but she harmed her neighbors by her speech. He ﷺ replied, "There is no good in her; she is of the people of Hell." He was then asked about a lady who only prays the obligatory prayers, and gives crumbs of goat cheese as charity, but doesn't irritate her neighbors. He ﷺ replied, "She is of the people of Jannah". [Reported by al-Bukhārī in his Adab al-Mufrad].  From this hadith, we learn: - harming others with one's tongue, by backbiting, and slander, and sarcastic remarks, and ridicule, is a sin that effectively nullifies almost all good deeds, the obligatory and the nafl. The fact that such a lady would end up in Jahannam *despite* all of her other good deeds is enough of a warning to be careful with respect to the rights of others.  - being mediocre in one's worship but tak...

Ten 10 Beautiful Words of Advice

TEN (10) BEAUTIFUL PIECES OF ADVICE... 🌀1) Say "Bismillah hir rahmaan nir raheem" in every single thing you are going to start doing (In using the elevator .. sitting on a chair .. Opening the juice bottle .. Eating .. Entering the house .. take the phone .. Starting to study .. Open the fridge ...etc) Make it a habit 🌀2) Smile to your father .. mother .. brother .. sister .. husband .. wife .. your neighbour .. workmate .. classmate .. Smile to everyone .. You'll feel great 🌀3) Before giving a charity to poor people .. Say 'Assalamu Alaikum' to them first .. Smile to them .. Feel their pain .. Be nice to them (Even while looking at them, don't make them feel inferior to you .. they have feelings .. don't hurt them with your eyes) ..And then give them your money .. They might be in need of your kindness more than your penny. 🌀4) Perfect idea ! Use the stairs in dhikr Allah .. In each step one dhikr.. For example: In the first stair say ' Astaghfiru...

آگ ‏از ‏احمد ‏فراز

آگ مُفلِسو! اپنے مُقدّر سے شکایت نہ کرو اِس سے اِنسان کے اِیمان میں فرق آتا ہے! ہم تو ناچِیز سے بندے ہیں، ہمیں کیا معلُوم کون سی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے کتنے گُم راہ و گُناہ گار ہُوئے جاتے ہو! کیا کہا؟ "خانماں برباد ہوئے جاتے ہیں! دم بدم آگ کے بے رحم لپکتے شُعلے اپنے بوسیدہ مکاں راکھ کیے جاتے ہیں! خاک ہی خاک ہُوئی جاتی ہے دُنیا اپنی اور اِس آتش و ظُلمات کے سیلاب میں بھی مرمر و آہن و سِیماں کی عمارات بلند اُسی پِندار، اُسی شان سے اِیستادہ ہیں کیا خُدا صرف غریبوں پہ ستم ڈھاتا ہے؟" ٹھیک کہتے ہو، مگر خام عقائد والو! ہم تو تقدیر کے بندے ہیں، ہمیں کیا معلُوم کون سی بات میں کیا مصلحتِ یزداں ہے! اور پھر اپنی شکایت سے بھی کیا ہوتا ہے؟ وہی ہوتا ہے جو منظورِ خُدا ہوتا ہے!! (احمد فراز)

اللّٰہ بچائے ‏از ‏پیر ‏نصیر ‏الدین ‏نصیر

زندگی مطمئن ہے ہماری، خلفشاروں سے اللہ بچائے جن دیاروں میں عنقا سکوں ہو، ان دیاروں سے اللہ بچائے دوست کم اور دشمن زیادہ، گلعذاروں سے اللہ بچائے ویسے پُرکار، ظاہر میں سادہ، ایسے پیاروں سے اللہ بچائے مَیں چلا تو ہُوں اس انجمن میں، فتنہ کاروں سے اللہ بچائے روکتے ٹوکتے ہیں یہ سب کو، پہرہ داروں سے اللہ بچائے کیا کہا جا سکے اس نظر کو، اور پھر اس نظر کے اثر کو نفع سمجھیں جو دل کے ضرر کو، ان اشاروں سے اللہ بچائے ہم فقیروں کو ان کی طلب کیا، ملنے جلنے کا آخر سبب کیا لطف کیا، ان کا غیظ و غضب کیا، شہریاروں سے اللہ بچائے ہر صدا میں نہاں تیر و نشتر، ہر ادا ایک پوشیدہ خنجر وار چھپ چھپ کے کرتے ہیں اکثر، پردہ داروں سے اللہ بچائے وقت پر کام آتے نہیں ہیں، اپنے وعدے نبھاتے نہیں ہیں خودنما، خودنگر، خودغرض ہیں، مجھ کو یاروں سے اللہ بچائے ایک دھوکا ہے ان کا سہارا، جو جیا ان پہ بس اس کو مارا ظُلمتِ ہجر میں یہ بلا ہیں، چاند تاروں سے اللہ بچائے فتنہ جُو، فتنہ گر، فتنہ ساماں، دشمنِ جان و بدخواہِ ایماں روندتے جا رہے ہیں یہ میداں، شہسواروں سے اللہ بچائے مطمئن ہے نصیر اپنی ہستی، ہر قدم پر سفر کی ہے مستی دشت کا ہو ا...

تکونی ‏رشتوں ‏کی ‏نفسیات

تکونی رشتوں کی نفسیات __ جب ہم انسانی نفسیات کی بیسویں صدی کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ مختلف دانشوروں نے انسانی نفسیات کی تفہیم کے لیے مختلف نقطہ ہائے نطر پیش کیے یورپ کے دانشور سگمنڈ فرائڈ کا خیال تھا کہ انسان کے نفسیاتی مسائل جن میں اینزائٹی اور ڈیپریشن بھی شامل ہیں اس کے داخلی مسئلے ہیں جو اس کے شعور اور لاشعور کے تضادات سے پیدا ہوتے ہیں فرائڈ کے مقابلے میں امریکہ کے دانشور ہیری سٹاک سالیوان کا موقف تھا کہ انسان کا نفسیاتی مسئلہ دو انسانوں کے تضاد سے بھی پیدا ہو سکتا ہے جب ایک انسان دوسرے انسان کا احترام نہیں کرتا اس سے عزت سے پیش نہیں آتا، اس سے تعصب کا سلوک کرتا ہے تو ایسے اعمال سے نفسیاتی مسئلہ پیدا ہوتا ہے ان دو دانشوروں کے مقابلے میں امریکی دانشور Murray Bowen نے انسانی نفسیات اور نفسیاتی مسائل کا تیسرا نظریہ پیش کیا بوون کا کہنا تھا کہ انسانی رشتوں کی بنیادی اکائی دو انسان نہیں تین انسان ہیں انسان بنیادی طور پر تکونی رشتے تخلیق کرتا ہے بوون کا کہنا تھا کہ جب دو انسانوں کے درمیان کوئی اختلاف یا تضاد پیدا ہوتا ہے تو وہ شخص جو ذہنی طور پر زیادہ پریشان ہ...

Motivation by Joe Roedel

Me: I have no hope. God: Nah. You still have some left. Me: Really? God: Yep. Me: How much? God: Well, the exact amount of hope you have left kind of depends. Me: On what? God: On how many more times you plan on breathing.                   ~~~~~~~~~~~ we have been trained to believe in the lie  of scarcity  that all treasures have a limited  supply that there is only  so much to go around  that eventually we  will run out of everything  we’re told that gold, polar bears, oil and  coastlines  can all disappear in a blink of an eye  that may all  be true - but but there is one precious  commodity that remains  abundant:   hope  it exists in every  breath we  inhale  hope is mixed in with the  oxygen that we take into our  lungs  my love, the air that you pass through your sweet  raspberry lips  is hope  as long as you...

مالک ‏ارض ‏و ‏سما ‏سے ‏شرم

مجھے مالک ارض و سما سے شرم آتی ہے -------------------- خلیفہ سلیمان بن عبدالملک کا ایک مؤذن تھا جو قصر خلافت میں پانچ وقت اذان دیا کرتا تھا۔ایک مرتبہ خلیفہ کی لونڈی نے اس کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ شکایت کی کہ آپ کا مؤذن مجھے غلط نگاہ سے دیکھتا ہے۔ خلیفہ سلیمان بہت باغیرت تھا، اس نے مؤذن کو سزا دینا چاہی۔چنانچہ اس نے لونڈی کو حکم دیا"تم خوبصورت کپڑے پہن کر بن سنور کر اس کے پاس جاؤ اور کہو کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں اور مجھے اس کا اقرار ہے۔امیر المومنین سے بھی ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کو کیا علم کہ ہم ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔"اس قسم کی گفتگو سکھا کر خلیفہ نے لونڈی کو مؤذن کے پاس بھجوا دیا اور کہا کہ وہ جو جواب دے مجھے بتانا۔ لونڈی نے اپنے آپ کو بنایا سنوارا اور مؤذن کے پاس چلی گئی۔اس نے اس مفہوم کی گفتگو مؤذن سے کی تو مؤذن نے فوراً چہرہ آسمان کی طرف کر لیا اور کہا: "اے میرے بزرگ و برتر رب! تیرا خوبصورت پردہ کدھر ہے کہ میں اس میں چھپ جاؤں؟" پھر لونڈی سے کہا کہ دوبارہ میرے پاس نہ آنا،عنقریب ہمیں ایک ایسی ہستی کے سامنے پیش ہونا ہے جو دھوکہ نہیں کھا سکتی۔ مؤذن کا ی...

غزل ‏از ‏میثم ‏علی ‏آغا

قدم قدم پہ جہنم سہارتا ہوا میں تمہارے ہجر سے خود کو گزارتا ہوا میں یہ پور پور اذیت میں ڈالتے ہوئے تم یہ سانس سانس محبت پکارتا ہوا میں پھر ایک رات اذیت سے مر گیا تھا کہیں تمہارے عشق کو اندر سے مارتا ہوا میں عجب نہیں ہے کسی روز قتل ہو جاؤں تمہاری جان کا صدقہ اُتارتا ہوا میں زمین تنگ ہوئی جا رہی ہے وحشت کو سمٹتا جاتا ہوں پاؤں پسارتا ہوا میں کہا نہیں تھا کہ مجھ سے سدھر نہ پائے گی! بگڑ گیا ہوں یہ دنیا سدھارتا ہوا میں ِمُعاف کرنا، تِرا ساتھ دے نہیں پایا پلٹ رہا ہوں محبت میں ہارتا ہوا میں عجیب شخص ہوں، ہنستا ہوں، شعر کہتا ہوں یہ زہر روز رگوں میں اُتارتا ہوا میں (میثم علی آغا)

کون ‏یاد ‏رکھتا ‏ہے!!

کون یاد رکھتا ہے؟ کون یاد رکھتا ہے؟ تم بھی بھول جاؤ گے! وصل کے زمانے کو ہجرتوں کے موسم کو آنکھ کی اداسی کو آرزو کی خوشبو کو بے قرار لمحوں کو اعتبار کھونا ہے زندگی کے ہاتھوں میں زندگی کھلونا ہے! یاد ہی نہیں رہتا کون کس جگہ پر تھا! سب ہی بھول جاتے ہیں! تم بھی بھول جاؤ گے!!

غزل ‏از ‏افتخار ‏حسین ‏عارف

کوئی تو پھول کھلائے دعا کے لہجے میں عجب طرح کی گھٹن ہے ہوا کے لہجے میں یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں نہ جانے خلقِ خدا کون سے عذاب میں ہے ہوائیں چیخ پڑیں التجا کے لہجے میں کھلا فریبِ محبت دکھائی دیتا ہے عجب کمال ہے اس بےوفا کے لہجے میں یہی ہے مصلحتِ جبرِ احتیاط، تو پھر ہم اپنا حال کہیں گے چھپا کے لہجے میں Iftikhar Hussain Arif - افتخار حسین عارف

ایک ‏سوال ‏از ‏افتخار ‏حسین ‏عارف

>< ایک سوال >< میرے آبا و اجداد نے حُرمتِ آدمی کے لیے تا ابد روشنی کے لیے کلمۂ حق کہا! مقتلوں، قید خانوں، صلیبوں میں بہتا لہو اُن کے ہونے کا اعلان کرتا رہا! وہ لہو حُرمتِ آدمی کی ضمانت بنا تا ابد روشنی کی علامت بنا! اور میں پا برہنہ، سرِ کُوچۂ اِحتیاج، رِزق کی مصلحت کا اسِیر آدمی سوچتا رہ گیا جِسم میں میرے اُن کا لہُو ہے تو پھر یہ لہُو بولتا کیوں نہیں؟ (افتخار عارف)

غزل ‏از ‏احمد ‏فراز

ترا قرب تھا کہ فراق تھا، وہی تیری جلوہ گری رہی کہ جو روشنی ترے جسم کی تھی، مرے بدن میں بھری رہی ترے شہر سے مَیں چلا تھا جب تو کوئی بھی ساتھ نہ تھا مرے تو مَیں کس سے محوِ کلام تھا؟ تو یہ کس کی ہم سفری رہی؟ مُجھے اپنے آپ پہ مان تھا کہ نہ جب تلک ترا دھیان تھا تو مثال تھی مری آگہی، تو کمال بےخبری رہی مرے آشنا بھی عجیب تھے، نہ رفیق تھے، نہ رقیب تھے مُجھے جاں سے درد عزیز تھا، انہیں فکرِ چارہ گری رہی میں یہ جانتا تھا مرا ہنر ہے شکست و ریخت سے معتبر جہاں لوگ سنگ بدست تھے، وہیں میری شیشہ گری رہی جہاں ناصِحوں کا ہجُوم تھا، وہیں عاشِقوں کی بھی دُھوم تھی جہاں بخیہ گر تھے گلی گلی، وہیں رسمِ جامہ دری رہی ترے پاس آ کے بھی جانے کیوں مری تشنگی میں ہراس تھا! بہ مثالِ چشمِ غزال جو لبِ آبجُو بھی ڈری رہی جو ہوس فروش تھے شہر کے، سبھی مال بیچ کے جا چکے مگر ایک جنسِ وفا مری، سرِ رہ دھری کی دھری رہی مرے ناقدوں نے فراز جب مرا حرف حرف پرکھ لیا تو کہا کہ عہدِ رِیا میں بھی جو کھری تھی بات کھری رہی (احمد فراز)

I MAY, I MIGHT, I MUST by Marianne Moore

I MAY, I MIGHT, I MUST If you will tell me why the fen appears impassable, I then Will tell you why I think that I can get across it if I try. (Marianne Moore)

غزل ‏از ‏افتخار ‏شفیع

جدید ہوتے ہوئے کہنہ سال آدمی ہُوں مَیں آپ اپنے لیے اک سوال آدمی ہُوں مری تلاش میں پھرتی ہے ریگِ صحرا بھی مَیں اپنے دشت میں ہُوں اور غزال آدمی ہُوں مُجھی سے روشنی پاتے ہیں اختر و مہتاب شبِ سیاہ میں سورج مثال آدمی ہُوں بہت سنبھال کے دیکھو مجھے، کہ مَیں صاحب عروج دور میں محوِ زوال آدمی ہُوں مجھے بھی نخلِ تمنّا کی رہگزار میں دیکھ مَیں برف زار میں پتّوں پہ شال آدمی ہُوں (ڈاکٹر افتخار شفیع)

اک ‏سجن ‏ہوندا ‏سی ‏از ‏ارشاد ‏سندھو

اِک سجن ہوندا سی! اِک سجن ہوندا سی زہراں وِچ پَتاسے ورگا سُرمے، سک، دنداسے ورگا دُکھاں وچ دِلاسے ورگا سجرے چَن دے ہاسے ورگا اک سجن ہوندا سی! اکّھڑ شوخ ہواواں ورگا دُھپّاں دے وچ چھاواں ورگا اوکھے ویلے باہواں ورگا اَٹّھے پہر دعاواں ورگا اک سجن ہوندا سی! تِکّھا تیز شراباں ورگا رنگ تے روپ نواباں ورگا سُچا پُھل گلاباں ورگا پچھلی رات دے خواباں ورگا اک سجن ہوندا سی! مِٹّھیاں مِٹّھیاں باتاں ورگا چیت وساکُھو راتاں ورگا پیار دیاں سوغاتاں ورگا عیداں تے شبراتاں ورگا اک سجن ہوندا سی! پھگّن، چیت، بہاراں ورگا امب تے سیب، اناراں ورگا صاحباں تے سرکاراں ورگا ہفتے دے اتواراں ورگا اک سجن ہوندا سی! مکھن، دُدھ، ملائیاں ورگا ٹانگر، گچک، ختائیاں ورگا برفی، کھنڈ، مٹھائیاں ورگا سندھو، نیک کمائیاں ورگا اک سجن ہوندا سی! جیدی راہ وچ راہ وی ہسدے ہوندے سی آؤندے جاندے ساہ وی ہسدے ہوندے سی اک سجن ہوندا سی! اک سجن ہوندا سی!! (ارشاد سندھو)

مجھے ‏مار ‏دیجیے

‎کافر ہوں، سر پھرا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں سوچنے لگا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎ہے احترامِ حضرتِ انسان میرا دیں ‎بے دین ہو گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں پوچھنے لگا ہوں سبب اپنے قتل کا ‎میں حد سے بڑھ گیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎کرتا ہوں اہلِ جبہ و دستار سے سوال ‎گستاخ ہوگیا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎خوشبو سے میرا ربط ہے، جگنو سے میرا کام ‎کتنا بھٹک گیا ہوں! مجھے مار دیجیے ‎معلوم ہے مجھے کہ بڑا جرم ہے یہ کام ‎میں خواب دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎زاہد، یہ زہد و تقویٰ و پرہیز کی روش ‎میں خوب جانتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎بے دین ہوں، مگر ہیں زمانے میں جتنے دین ‎میں سب کو مانتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎پھر اس کے بعد شہر میں ناچے گا ہُو کا شور ‎میں آخری صدا ہُوں، مجھے مار دیجیے ‎میں ٹھیک سوچتا ہوں، کوئی حد مرے لیے ‎میں صاف دیکھتا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎یہ ظلم ہے کہ ظلم کو کہتا ہوں صاف ظلم ‎کیا ظلم کر رہا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎میں عشق ہوں، میں امن ہوں، میں علم ہوں، میں خواب ‎اک درد لادوا ہوں، مجھے مار دیجیے ‎زندہ رہا تو کرتا رہوں گا ہمیشہ پیار ‎میں صاف کہہ رہا ہوں مجھے مار دیجیے ‎جو زخم بانٹتے ہیں، انہیں زیست پہ ہے ح...

چلو ‏اک ‏بار ‏از ‏ساحر ‏لدھیانوی

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭ چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں نہ میں تم سے کوئی امید رکھوں دل نوازی کی نہ تم میری طرف دیکھو غلط انداز نظروں سے نہ میرے دل کی دھڑکن لڑکھڑائے میری باتوں سے نہ ظاہر ہو تمہاری کشمکش کا راز نظروں سے تمہیں بھی کوئی الجھن روکتی ہے پیش قدمی سے مجھے بھی لوگ کہتے ہیں کہ یہ جلوے پرائے ہیں مرے ہمراہ بھی رسوائیاں ہیں میرے ماضی کی تمہارے ساتھ بھی گزری ہوئی راتوں کے سائے ہیں تعارف روگ بن جائے تو اس کا بھولنا بہتر تعلق بوجھ بن جائے تو اس کا توڑنا اچھا وہ افسانہ جسے انجام تک لانا نہ ہو ممکن اسے اک خوبصورت موڑ دے کر چھوڑنا اچھا چلو اک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں ۔۔ (ساحر لدھیانوی)

نعت ‏شریف ‏از ‏پیر ‏مہر ‏علی ‏شاہ ‏علیہ ‏رحمہ

♥ ♥ ♥ اج سک متراں دی ودھیری اے کیوں دلڑی اداس گھنیری اے لوں لوں وچ شوق چنگیری اے اج نیناں لائیاں کیوں جھڑیاں اَلْطَّیْفُ سَریٰ مِنْ طَلْعَتِہ والشَّذُو بَدیٰ مِنْ وَفْرَتَہ فَسَکَرْتُ ھُنَا مِنْ نَظْرَتِہ نیناں دیاں فوجاں سر چڑھیاں مکھ چند بدر شعشانی اے متھے چمکے لاٹ نورانی اے کالی زلف تے اکھ مستانی اے مخمور اکھیں ہن مدھ بھریاں دو ابرو قوس مثال دسن جیں توں نوک مژہ دے تیر چھٹن لباں سرخ آکھاں کہ لعل یمن چٹے دند موتی دیاں ہن لڑیاں اس صورت نوں میں جان آکھاں جانان کہ جانِ جہان آکھاں سچ آکھاں تے رب دی شان آکھاں جس شان تو شاناں سب بنیاں ایہہ صورت ہے بے صورت تھیں بے صورت ظاہر صورت تھیں بے رنگ دسے اس مورت تھیں وچ وحدت پھٹیاں جد گھڑیاں دسے صورت راہ بے صورت دا توبہ راہ کی عین حقیقت دا پر کم نہیں بے سوجھت دا کوئی ورلیاں موتی لے تریاں ایہا صورت شالا پیش نظر رہے وقت نزع تے روزِ حشر وچ قبر تے پل تھیں جد ہوسی گذر سب کھوٹیاں تھیسن تد کھریاں یُعْطِیُکَ رَبُّکَداس تساں فَتَرْضیٰتھیں پوری آس اساں لج پال کریسی پاس اساں والشْفَعْ تُشَفَّعْ صحیح پڑھیاں لاہو مکھ تو بردِ یمن من بھانوری جھلک دکھلاؤ سجن اوہا مٹھ...

The Law of Concatenation

 Life, as we know it, is a strange phenomenon, a queer mixture of pains and pleasures, ups and downs. Human existence is inextricably bound up in a stream of events and incidents, flowing along through cause and effect. The Law of Concatenation holds its sway in all spheres of human life and survival depends on following certain set patterns and established norms. Things, individuals and even societies prosper, flourish only when they operate withing a framework of rules and regulations, and deteriorate, dwindle and die when going against the tide. Permanence of habits and characteristics relies on maintaining a balance between one's actions and desires, and going beyond that always results in destruction and death..

مری ‏بات ‏بیچ ‏میں ‏رہ ‏گئی ‏از ‏امجد ‏اسلام ‏امجد

تیرے ارد گررد وہ شور تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے یقین سا کرگیا تیرا بات بات پہ ٹوکنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی ترے شہر میں مرے ہم سفر، وہ دکھوں کا جم غفیر تھا مجھے راستہ نہیں مل سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی وہ جو خواب تھے مرے سامنے ، جو سراب تھے مرے سامنے میں انہی میں ایسے الجھ گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی عجب ایک چپ سی لگی مجھے ، اسی ایک پل کے حصار میں ہوا جس گھڑی ترا سامنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی کہیں بے کنار تھیں خواہشیں ، کہیں بے شمار تھیں الجھنیں کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی تھا جو شور میری صداؤں کا ، مری نیم شب کی دعاؤں کا ہوا ملتفت جو مرا خدا ، مری بات بیچ میں رہ گئی مری زندگی میں جو لوگ تھے ، مرے آس پاس سے اٹھ گئے میں تو رہ گیا انہیں روکتا ، مری بات بیچ میں رہ گئی تری بے رخی کے حصار میں ، غم زندگی کے فشار میں مرا سارا وقت نکل گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی مجھے وہم تھا ترے سامنے ، نہیں کھل سکے گی زباں مری سو حقیقتا بھی وہی ہوا ، مری بات بیچ میں رہ گئی امجد اسلام امجد

Motivation

Not everyone will understand you. Not everyone will appreciate your uniqueness. Sometimes your genuine energy makes people fearful, because it challenges them to be real and honest with themselves. Not everyone is ready for that kind of growth. Don't blame yourself for someone else's difficulty to accept your greatness. Some people rather fight, argue, and cause problems before they even look in the mirror and face themselves. This is the place where you have to realize your worth and level of vibration is not meant to match everyone you meet. Some people are teaching you lessons and lessons only. Some people are just reminders to show you that you deserve better and are worth so much more. Don't take it personal. Just let go with ease, and focus on your inner peace.

محبت ہوتی ‏کیسے ‏ہے؟

محبّت ہوتی کیسے ہے؟ بالکل اچانک جب آپ کو محسوس ہوتا ہے کے کوئی دوسرا آپ کے اندر اگنا شروع ہوگیا ہے محبّت ایک دوسرے کے اندر اگنا ہے پہلے تو کسی بیج کی طرح دوسرے کے اندر فنا ہونا - اپنا آپ مٹا دینا پھر اگنا جوں جوں محبّت بڑھتی ہے ایک دوسرے کے اندر جڑیں گہری ہوتی چلی جاتی ہیں اس پودے کو ہر روز تازہ محسوسات اور جذبوں کی کھاد ،آنسوؤں کا پانی ، دوسرے کے سانسوں کی ہوا اور من کی پر حرارت دھوپ کی ضرورت رہتی ہے- اگر کبھی آپ کو اپنا آپ مرجھاتا ہوا محسوس ہو تو سمجھ لیں کے دوسرے کے من کی زمین پتھریلی ہوگیئ ہے اور اس نے آپ کے اندر سے اپنی جڑیں بیدردی سے سمیٹ لی ہیں- جب آپ ایک دوسرے کے اندر اگتے ہیں تو محبّت پھول بن کر کھل اٹھتی ہے اور اسس کی خوشبو آپ کے پورے بدن بدن میں پھیل جاتی ہے ، دوسرے کا وجود اور آپ کا وجود ایک ہوکر ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں- محبّت بری شفّاف چیز ہے کسی آئینے کی طرح اس پر ہلکا سا ناگواری کا کوئی میلہ چھینٹا بھی فورآ دکھائی پڑ جاتا ہے ہر سچی اور خالص چیز کے ساتھ یہی مسلہ ہے - تھوڑا سا ناخالص احساس بھی یکدم بری طرح محسوس ہونے لگتا ہے-اس لیہ کسی ایک بھی میلے لفظ ، جملے،کج ادائی یا...

مستقل ‏کون ‏جگہ ‏دیتا ‏ہے ‏از ‏اتباف ‏ابرک

مستقل کون جگہ دیتا ہے ہر کوئی دل سے اٹھا دیتا ہے ڈھونڈ کر خود کو جسے سونپتا ہوں  پہلی فرصت میں گنوا دیتا ہے ہے خطا وار بھروسہ جو کرے اس کا کیا ہے جو دغا دیتا ہے خواب دیکھے ہے سماعت میری اب ہمیں کون صدا دیتا ہے سامنے کچھ ہے دکھاتا کچھ ہے دل تو اندھا ہی بنا دیتا ہے حسن سے بحث نہیں ہو سکتی بات، باتوں میں گھما دیتا ہے ہار جاتا ہے دلیلوں سے جہاں شعر میرے ہی سنا دیتا ہے عمر بھر خواب جو تکیہ تھا مرا اب ڈرا کر وہ جگا دیتا ہے کچھ جنوں پیشہ ہے دیوانہ ترا کچھ زمانہ بھی ہوا دیتا ہے جانے کیا روگ لگا ہے ہم کو بندہ بندہ ہی دعا دیتا ہے چار ہی دن کا تعلق ابرک سب کی اوقات بتا دیتا ہے

Big Bird Thinking

بگ برڈ تھنکنگ صبر کی حقیقت کیا ہے، اس کو بیان کرتے ہوئے خلیفہ ثانی عمر بن الخطاب (وفات23 ھ) کا ایک قول کتابوں میں ان الفاظ میں نقل کیا گیا ہے:إِنَّ أَفْضَلَ عَیْشٍ أَدْرَکْنَاہُ بِالصَّبْرِ، وَلَوْ أَنَّ الصَّبْرَ کَانَ مِنَ الرِّجَالِ کَانَ کَرِیمًا (الصبروالثواب علیہ لابن أبی الدنیا، اثر نمبر 6)۔ یعنی بیشک افضل زندگی ہم نے صبر میں پائی، اور اگر صبر انسان ہوتا ، تو وہ کریم ہوتا۔ یہ دراصل صابر انسان کی پہچان (identity) ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر کا مزاج ہو، اس کے اندر اسی قسم کی اعلی انسانی صفت موجود ہوگی۔کریم انسان سے مراد شریف اور سنجیدہ انسان ہے۔ جو اعلیٰ سوچ کا مالک ہو، جو بولنے سے پہلے سوچے، جو بدلہ لینے کے بجائے معاف کرنے کو بہتر سمجھتا ہو، جو بولے کم، اور سوچے زیادہ، جس کے اندر ردعمل (reaction) کا مزاج نہ ہو، وغیرہ۔ اعلیٰ سوچ کیا ہے۔اعلیٰ سوچ ایک لفظ میں بگ برڈ تھنکنگ (Big Bird Thinking) کا دوسرا نام ہے۔ بگ برڈ تھنکنگ کی حقیقت یہ ہے کہ جب خطرناک طوفان آتے ہیں، تووہاں پر موجود چھوٹے چھوٹے پرندے جو زیادہ اوپر نہیں اڑ پاتے ہیں، وہ طوفان میں پھنس کر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ا س کے برعکس،...

Kafka and The Little Girl

At 40, Franz Kafka (1883-1924), who never married and had no children, walked through the park in Berlin when he met a girl who was crying because she had lost her favourite doll. She and Kafka searched for the doll unsuccessfully. Kafka told her to meet him there the next day and they would come back to look for her. The next day, when they had not yet found the doll, Kafka gave the girl a letter "written" by the doll saying "please don't cry. I took a trip to see the world. I will write to you about my adventures." Thus began a story which continued until the end of Kafka's life. During their meetings, Kafka read the letters of the doll carefully written with adventures and conversations that the girl found adorable. Finally, Kafka brought back the doll (she bought one) that had returned to Berlin. "It doesn't look like my doll at all," said the girl. Kafka handed her another letter in which the doll wrote: "my travels have changed me....

ابھی ‏کچھ ‏دیر ‏باقی ‏ہے

@ تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے@ _____________________________ ابھی کچھ دیر باقی ہے ابھی سوتے رہو بھائی ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟ ابھی بے روزگاری نے تمہارے درپہ دستک بھی نہیں دی ہے تمہارے بچے کی بوتل میں اب تک دودھ باقی ہے تمہارے گھر میں راشن ہے ابھی فاقے نہیں ہوتے تمہارے اہل خانہ رات کو بھوکے نہیں سوتے ابھی سوتے رہو بھائی ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟ تمہارا کچھ نہیں بگڑا تمہاری والدہ ہیں محترم اب بھی کہ ان کی کوئی شب اب تک نہیں گزری ہے تھانے میں میں؟ تمہاری بہن کو اب تک کوئی” کاری ” نہیں کہتا شریکِ زندگی کے کھلتے چہرے پر کسی ظالم نے کب تیزاب پھینکا ہے؟ نہ دختر نیک اختر نے ابھی تک اجتماعی زیادتی کا کرب جھیلا ہے ابھی سوتے رہو بھائی ابھی سے کیوں پریشاں ہو؟ تمہارا کچھ نہیں بگڑا بتاؤ کیا کبھی لختِ جگر اغوا ہوا ہے اور کبھی تم سے کسی نے آج تک تاوان مانگا ہے؟ دھماکے ہوتے رہتے ہیں مگر اب تک تمھارا بھائی مسجد سے بخیر و عافیت گھر کو پہنچتا ہے بھتیجا اب بھی ان گلیوں میں کرکٹ کھیلتا ہے اور ابھی تک تو کسی نے بھی اسے الٹا نہیں ٹانگا نہ اسکی لاش گلیوں میں گھسیٹی ہے ابھی سوتے رہو بھائی ابھی سے کیوں ...

The Florist and The Barber

One day a florist went to a barber for a haircut.  After the cut, he asked about his bill, and the barber replied, 'I cannot accept money from you, I'm doing community service this week.' The florist was pleased and left the shop.  When the barber went to open his shop the next morning, there was a 'thank you' card and a dozen roses waiting for him at his door.  Later, a cop comes in for a haircut, and when he tries to pay his bill, the barber again replied, 'I cannot accept money from you, I'm doing community service this week.' The cop was happy and left the shop.  The next morning when the barber went to open up, there was a 'thank you' card and a dozen doughnuts waiting for him at his door.  Then a Member of Parliament came in for a haircut, and when he went to pay his bill, the barber again replied, 'I cannot accept money from you. I'm doing community service this week.' The Member of Parliament was very happy and left the shop. ...

بلا ‏کا، ‏ضبط ‏پہ ‏اپنے، ‏غرور ‏ہو ‏گیا ‏تھا ‏از ‏ضمیر ‏قیس

بلا کا، ضبط پہ اپنے، غرور ہو گیا تھا میں تشنہ لب سہی، دریا سے دور ہو گیا تھا میں تیری ڈھال ہوں، لیکن تجھے خبر بھی نہیں مرا بدن ترے زخموں سے چور ہو گیا تھا پلٹ کے اور بھی شدت سے اس نے آنا ہے شکستِ شرم سے دشمن غیور ہو گیا تھا سب اپنا اپنا خزانہ چھپا کے بیٹھے ہیں کسی کے دل میں تو پیدا فتور ہو گیا تھا میں خشک ریت کا ذرہ سہی، مگر اک دن سمندروں پہ بھی مجھ کو عبور ہو گیا تھا وحی کا بھی تو نہیں تھا گمان اس پہ ہمیں جو ایک حرفِ تنزل زبور ہو گیا تھا دریچہ جھٹ سے وہ کھل کے ہوا تھا بند، مگر گلی میں صبح کے سورج سا نور ہو گیا تھا انا پرست وہ پہلے بھی تھا، مگر اب تو مزاجِ دل ہی سرِ اوجِ طُور ہو گیا تھا بہت سی خط کی عبارت مجھے مٹانی پڑی ذرا سا حادثہ بین السطور ہو گیا تھا یقیں نہیں تھا خدائی پہ اہلِ دل کو ابھی تو عشق معجزہ بن کے ظہور ہو گیا تھا خرد کی میز پہ رکھی ہوئی تھی دل کی کتاب سو شعر کہنے کا مجھ کو شعور ہو گیا تھا کسی کے قرب میں مجھ کو تو شرم آنے لگی جو حال تیرا دلِ ناصبور، ہو گیا تھا بس ایک اسمِ محبت سے رام کر لیا ہے جو شخص کاملِ عِلمِ نفور ہو گیا تھا وہ چیر اب کے لگا تو کہ بے خیالی میں شماریات ...

آدھا ‏رستہ ‏از ‏واصف ‏علی ‏واصف

آدھا رستہ آدھا رستہ طے کر آیا اب کیا سوچ رہا ہے آخر انجانی منزل کی جانب چلتا جائے یا واپس ہو جائے راہی! سوچ کے بھی انداز عجب ہیں سوچ کے ہی آغاز کِیا تھا سَو رستوں میں ایک چُنا تھا اور اب سوچ ہی روک رہی ہے آگے بھی کُچھ تاریکی ہے! لَوٹ کے جانا بھی مُشکِل ہے! سوچ کا سُورج ڈُوب رہا ہے! ایسے راہی کی منزل ہے __ آدھا رستہ!! (واصف علی واصف)

پہلے ‏ابجد ‏سے ‏مَیں ‏تعلیم ‏کیا ‏جانے ‏لگا

پہلے ابجد سے مَیں تعلیم کیا جانے لگا پھر مجھے عرش پہ تسلیم کیا جانے لگا وہ کہ اک دائرہ ہے، قابلِ تنصیف نہیں کیوں اسے قوس سے تفہیم کیا جانے لگا میرے خالق! مری وحدت کی حفاظت کرنا المدد! آج مَیں تقسیم کیا جانے لگا صاحبِ کُن بھی تھا اک اسم کی سرشاری میں جب اسے لوح پہ ترقیم کیا جانے لگا حاملِ احسنِ تقویم کبھی سوچا ہے؟ تُو اِدھر آتے ہی ترمیم کیا جانے لگا کیا کرشمہ کسی درویشِ خدا مست کا ہے ایک مجذوب بھی تعظیم کیا جانے لگا عشق درگاہ پہ دم بستہ کھڑا ہے کب سے حُسنِ نادیدہ کو تجسیم کیا جانے لگا (پروفیسر رانا غلام محی الدین)

ہم ‏اہلِ ‏قلم ‏کیا ‏ہیں ‏از ‏شورش ‏کاشمیری

ﮨﻢ ﺍﮨﻞ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ؟ ﺍَﻟﻔﺎﻅ ﮐﺎ ﺟﮭﮕﮍﺍ ﮨﯿﮟ ، ﺑﮯ ﺟﻮﮌ ﺳﺮﺍﭘﺎ ﮨﯿﮟ ﺑﺠﺘﺎ ﮨﻮﺍ ﮈﻧﮑﺎ ﮨﯿﮟ ، ﮨﺮ ﺩﯾﮓ ﮐﺎ ﭼﻤﭽﺎ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﻣﺸﮩﻮﺭ ﺻﺤﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ ، ﻋﻨﻮﺍﻥِ ﻣﻌﺎﻓﯽ ﮨﯿﮟ ﺷﺎﮨﺎﻧﮧ ﻗﺼﯿﺪﻭﮞ ﮐﮯ، ﺑﮯ ﺭﺑﻂ ﻗﻮﺍﻓﯽ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﯾﮧ ﺷﮑﻞ ﯾﮧ ﺻﻮﺭﺕ ﮨﮯ، ﺳﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﺪﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﯿﺎ ﮐﯿﺴﯽ؟ ﭘﯿﺴﮯ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮨﮯ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯽ ﺑَﮭﺮﻡ ﻟﮯ ﮐﺮ، ﺍﭘﻨﺎ ﮨﯽ ﻗﻠﻢ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ … ﮐﮧ ﻟﮑﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﺎ ﻏﻢ ﻟﮯ ﮐﺮ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﺗﺎﺑﻊ ﮨﯿﮟ ﻭﺯﯾﺮﻭﮞ ﮐﮯ، ﺧﺎﺩﻡ ﮨﯿﮟ ﺍﻣﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﻗﺎﺗﻞ ﮨﯿﮟ ﺍَﺳﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ، ﺩﺷﻤﻦ ﮨﯿﮟ ﻓﻘﯿﺮﻭﮞ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﺍَﻭﺻﺎﻑ ﺳﮯ ﻋﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ ، ﻧُﻮﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﻧﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﻃﺎﻗﺖ ﮐﮯ ﭘُﺠﺎﺭﯼ ﮨﯿﮟ ، ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺪﺍﺭﯼ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﺗﺼﻮﯾﺮِ ﺯﻣﺎﻧﮧ ﮨﯿﮟ ، ﺑﮯ ﺭﻧﮓ ﻓﺴﺎﻧﮧ ﮨﯿﮟ ﭘﯿﺸﮧ ﮨﯽ ﮐﭽﮫ ﺍﯾﺴﺎ ﮨﮯ، ﮨﺮ ﺍِﮎ ﮐﺎ ﻧﺸﺎﻧﮧ ہیں ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﺭَﮦ ﺭَﮦ ﮐﮯ ﺍﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﻣﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮩﻨﮯ ﮐﯽ ﺟﻮ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮨﯿﮟ ، ﮐﮩﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮈﺭﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ﺑﮯ ﺗﯿﻎ ﻭ ﺳﻨﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ، ﺑﺎ ﺁﮦ ﻭ ﻓﻐﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺍﺱ ﺳﻮﭺ ﻣﯿﮟ ﻏﻠﻄﺎﮞ ﮨﯿﮟ ، ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ؟ ﮨﻢ ﺍﮨﻞِ ﻗﻠﻢ ﮐﯿﺎ ﮨﯿﮟ ؟ ۔ کلام : ﺷﻮﺭﺵ ﮐﺎﺷﻤﯿﺮﯼ